DW

ٹی وی ڈرامے بھی پاکستانیوں کے ذہنی مسائل کی ایک وجہ؟

اب غیر ازدواجی جنسی تعلقات بھی عام سی بات لگنے لگے ہیں کیونکہ ایسا مواد دیکھ دیکھ کر ذہن سازی ہو چکی ہے۔ جنسی طور پر ہراساں کیا جانا بھی ہر طرف دکھائی دیتاہے۔

ٹی وی ڈرامے بھی پاکستانیوں کے ذہنی مسائل کی ایک وجہ؟
ٹی وی ڈرامے بھی پاکستانیوں کے ذہنی مسائل کی ایک وجہ؟ 

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ذہنی بیماریوں اور دماغی صحت کے مسائل سے دوچار شہریوں کی تعداد چوبیس ملین سے زائد ہے، جن کے لیے ملک بھر میں رجسٹرڈ ماہرین نفسیات کی تعداد صرف پانچ سو ہے۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اعداد و شمار کے مطابق آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس پانچویں سب سے بڑے ملک میں نفسیاتی عارضوں کے شکار افراد اور پیشہ ور نفسیاتی معالجین کی تعداد میں تناسب کو دیکھا جائے تو ہر اڑتالیس ہزار مریضوں کے لیے صرف ایک ماہر معالج دستیاب ہے۔ اسی طرح اگر پورے ملک کی مجموعی آبادی اور رجسٹرڈ ماہرین نفسیات کی تعداد کو دیکھا جائے تو یہ شرح تقریباﹰ نصف ملین شہری فی معالج بنتی ہے۔

Published: undefined

ذہنی صحت کے بہت سے ماہرین کے مطابق اقتصادی، مالی اور سیاسی بحرانوں کے شکار اس ملک میں غربت، شدید مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل تو عوام کے لیے نفسیاتی مشکلات کی وجہ بنتے ہی ہیں، لیکن ایک وجہ ایسی بھی ہے جو تفریح کے نام پر مگر اپنے منفی اثرات کے باعث ذہنی امراض میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ پاکستان میں نجی ٹی وی اداروں کی تعداد درجنوں میں ہے جو اپنے ناظرین کے لیے خبریں نشر کرنے کے علاوہ تفریح کے لیے ڈرامے بھی نشر کرتے ہیں۔ ملک میں تفریحی نشریاتی شعبہ روز بروز ترقی کر رہا ہے، جس کی پیداوار میں بہت منفرد موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایسے تفریحی پروگراموں اور ڈراموں کی تیاری میں ناظرین کی حساسیت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا اور ماہرین اس پہلو پر مسلسل تشویش کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔

Published: undefined

ناقدین کا دعویٰ ہے کہ ملک میں کام کرنے والے ٹی وی پروڈکشن ہاؤسز منافع تو بہت کماتے ہیں لیکن ان کے تیارہ کردہ ڈراموں میں اسکرپٹ یا ریکارڈ شدہ مواد کی ایڈیٹنگ اور مانیٹرنگ پر توجہ کم ہی دی جاتی ہے اور یہ امر شائقین کی نفسیاتی صحت کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہو رہا ہے۔ عوامی تفریح کے ایک اہم ذریعے کے طور پر ٹیلی ویژن کی کارکردگی پر تنقیدی نظر رکھنے والی مہوش خان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”ابلاغ عامہ کے کسی بھی ذریعے کی تعریف ایک ایسے میڈیم کے طور پر کی جاتی ہے، جو لوگوں کی بڑی تعداد کو مختلف طرح کے کرداروں کے ذریعےمعلومات پہنچاتا ہو۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جو میڈیم بڑے مؤثر طریقے سے ملک سے جہالت کا خاتمہ کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے، وہی جہالت پھیلانے کا موجب بن رہا ہے۔‘‘

Published: undefined

مہوش خان نے اپنے موقف کے حق میں مثالیں دیتے ہوئے بتایا، ’’عورت دشمن رویے، ساس بہو کے جھگڑے، سالی، دیور یا باس کے ساتھ عشق اور تعصب تو پاکستانی ٹی وئ ڈراموں میں عام سی باتیں ہیں۔ عورت کو محکوم دکھا کر اس کو اصل زندگی میں بھی محکوم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ماضی میں ’’تنہائیاں‘‘، ’’شہزوری‘‘ اور کئی دیگر بہت پسندیدہ ڈرامے ایسے بھی تو تھے جن میں لڑکیوں کو مضبوط، فیصلہ کن رویوں کی مالک اور زندگی سے بھرپور دکھایا جاتا تھا۔ تو اس وقت معاشرے میں یہی سب کچھ رواج پاتا بھی دیکھا گیا۔ ایسی الیکٹرانک تفریح کے لیے تحریری مواد کے معیار میں جتنا زوال اب دیکھا جا رہا ہے، پہلےکبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔"

Published: undefined

ماہر عمرانیات ذوالفقار راؤ نے اس موضوع پر ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”اس مسئلے کو سمجھنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ڈرامہ فنون لطیفہ ہی کی ایک قسم ہے، جو انہی حقائق کا ایمان دارانہ مظہر ہوتا ہے جو معاشرے میں دیکھے جا رہے ہوں۔ اسی بات کو سمجھنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر ہمارے معاشرے میں جنسی تشدد یا مثلاً اقلیتوں یا دیگر کمزور طبقات پر ظلم ہو رہا ہے، تو وہ انفرادی کہانیوں میں بھی نظر آئیں گے۔ ڈراموں میں بھی دکھائی دیں گے کیونکہ مصنف تو یہ دکھائے گا ہی۔ اس لیے یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ یہ سب کچھ کیوں دکھایا جا رہا ہے؟ یہ سوال لیکن ہمیشہ پیدا ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ جس طرح دکھایا جانا چاہیے، کیا اسی طرح دکھایا جا رہا ہے؟ مطلب یہ پوچھنا ضروری ہے کہ جو کچھ جیسے دکھایا جا رہا ہے، کیا وہی بالکل درست راستہ ہے؟‘‘

Published: undefined

ذوالفقار راؤ نے مثالوں سے وضاحت کرتے ہوئے بتایا، ’’ہمارے ہاں ڈراموں میں اکثر عورت کا غیرت کے نام پر قتل، عورتوں یا بچوں کو تھپڑ مارنا یا ظلم و زیادتی دکھانا اور پھر یہ تاثر دینا کہ یہ سب درگزر کیا جا سکتا ہے، یہ سراسر غلط بات ہے۔ اس سے ناظرین کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔ ان میں ڈپریشن اور بے چینی میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کس قسم کا مواد دیکھا جا رہا ہے اور دیکھنے والے کے ذاتی اور سماجی تجربات کیا ہیں اور نفسیاتی صحت کیسی ہے؟ ناظر پہلے ہی ڈپریشن کا شکار ہو، تو وہ سوچے گا کہ جو ظلم اس کے ساتھ ہو رہا ہے وہی سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر یہی بات اس کے ذہن میں پختہ ہو جائے گی، مایوسی بڑھے گی اور ذہنی مسائل شدید ہونے لگیں گے۔‘‘

Published: undefined

بحریہ یونیورسٹی کے اسکول آف سائیکالوجی کی پرنسپل اور مینٹل ہیلتھ ایکسپرٹ ڈاکٹر صائمہ کلثوم نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ جس قسم کی ٹی وی ڈرامہ پروڈکشن آج کل ہو رہی ہے، وہ عوام کی ذہنی صحت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ کامیڈی کے طور پر جو مواد ناظرین کو پیش کیا جا رہا ہے، وہ فحش گوئی پر مبنی ہوتا ہے۔ ایک طرف عورت کو بااختیار بنانے کی بات کی جاتی ہے، تو دوسری جانب عورت کو بہت کمزوراور مظلوم بھی دکھایا جا رہا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں تو مرد بھی مظلوم ہے، وہ تو کہیں نہیں دکھایا جاتا۔‘‘

Published: undefined

ماہر نفسیات صائمہ کلثوم نے کہا، ”انسان کی اگر ذہنی صحت نارمل نہیں ہو گی، تو وہ تشویش اور خوف کا شکار ہو جائے گا۔ ڈراموں کے کرداروں میں خود کو دیکھنے لگے گا۔ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ساس کو ظالم دکھایا جاتا ہے، تو میڈیا پر اکثر خواتین یہی کہتی دکھائی دیتی ہیں کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہے۔ تو اگر تفریحی میڈیا ایسا مواد مسلسل نشر کرتا رہےگا، تو عام شہریوں کی ذہنی اور نفسیاتی الجھنیں بڑھتی ہی رہیں گی۔"

Published: undefined

ڈاکٹر صائمہ کلثوم مزید کہتی ہیں، ’’اب غیر ازدواجی جنسی تعلقات بھی عام سی بات لگنے لگے ہیں کیونکہ ایسا مواد دیکھ دیکھ کر ذہن سازی ہو چکی ہے۔ جنسی طور پر ہراساں کیا جانا بھی ہر طرف دکھائی دیتاہے۔ تو پھر مردوں سے نفرت عام کیوں نہ ہو؟ لہٰذا اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) تمام پروڈکشن کمپنیوں کو مانیٹرنگ کی مدد سے متوازن مواد نشر کرنے کا پابند بنائے۔ ایسا مواد جو جنسی، نسلی، مذہبی یا گروہی تعصب کو ہوا نہ دے بلکہ صرف تفریحی نوعیت کا ہو۔‘‘

Published: undefined

ڈی ڈبلیو نے اسی موضوع پر پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے سابق سربراہ اورسینئر صحافی ابصار عالم کے ساتھ بھی تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا، ’’جس طرح کی پروڈکشن اب ہو رہی ہے، اس سے عوام کی ذہنی صحت کا متاثر ہونا لازمی سے بات ہے۔ پیمرا کے پاس ایسے بہت سے اعتراضات آتے بھی رہتے ہیں کہمعاشرے کے جو اصل مسائل ہیں، ان پر تو ڈرامے نہیں بن رہے۔ بس ہر ٹی وی چینل پر ایک ہی طرح کی تفریحی پروڈکشن ہو رہی ہے۔ اس طرح حقیقی معاشرتی مسائل اور موضوعات کہیں بہت نیچے جا چکے ہیں۔ زیادہ توجہ بالکل سطحی باتوں پر ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ ٹی وی چینلز کو اس کا فائدہ یہ ہے کہ یوں ان کو ریٹنگ بھی مل جاتی ہے اور ایسی پروڈکشنز پر لاگت بھی کم آتی ہے۔ اس لیے آپ کو ہر طرف مسلسل ایسا چربہ قسم کا مواد ہی تیار اور نشر ہوتا نظر آتا ہے۔"

Published: undefined

اس بارے میں پیمرا ایک قومی اتھارٹی کے طور پر کیا کر سکتی ہے؟ اس سوال کا ابصار عالم کے پاس جواب بہت واضح تھا، "پیمرا ایسا کچھ نہیں کر سکتی کہ مواد کیا ہے، اسکرپٹ کیا ہے؟ کیا لکھا اور بنایا جا رہا ہے؟ ان سب پہلوؤں پر پیمرا کا کوئی کنٹرول نہیں۔ اس اتھارٹی کا کام کسی سینسر بورڈ کا بھی نہیں۔ نہ ہی یہ ادارہ کسی ٹی وی چینل کا پروڈکشن سے متعلق داخلی طریقہ تبدیل کرا سکتا ہے۔ پیمرا کا کام تو اس وقت شروع ہوتا ہے، جب کوئی پروڈکشن نشر ہو چکی ہو۔ آن ایئر ہوتے ہوئے اگر کوئی پروگرام پیمرا کے طے کردہ قانونی تقاضوں کے منافی ہو، تو یہ اتھارٹی ایکشن لے سکتی ہے اور آج تک اس نے ایسا کئی مرتبہ کیا ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined