ثقافت

ماحولیاتی تبدیلیوں کی سنگینی کے موضوع پر لکھے گئے عالمی ادبی شاہکار

ممتاز ناول نگار امیتابھ گھوش کی کہانیاں فطرت کے پیچیدہ کردار کے گرد گھومتی ہیں۔ بنگلہ دیشی پس منظر رکھنے والے گھوش کا گھر تو نیویارک میں ہے لیکن دل اب بھی سندربن کے جنگلوں میں بھٹکتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کی سنگینی کے موضوع پر لکھے گئے عالمی ادبی شاہکار
ماحولیاتی تبدیلیوں کی سنگینی کے موضوع پر لکھے گئے عالمی ادبی شاہکار 

امیتابھ گھوش کی مشہور کتابوں میں سن دو ہزار میں شیشے کا محل یا 'دا گلاس پیلس‘، سن دو ہزار چار میں بھوکی موجیں یا 'دا ہنگری ٹائیڈ‘، سن دو ہزار آٹھ میں گلِ لالہ کا سمندر یا 'سی آف پوپیز‘ شامل ہیں۔ رواں برس ان کی ایک نئی کتاب جنگل نامہ شائع ہوئی ہے۔

Published: undefined

اس نئی کتاب میں ان کا موضوع کلائمیٹ چینج جیسے حساس معاملے سے جڑا ہے اور پھر اس کا بھی خاص تعلق سندربن کے جنگلات سے ہے، جسے زمین کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ سندربن کے جنگلات بنگال کے شیروں یا ٹائیگرز کے علاوہ نایاب جنگلی جڑی بوٹیوں اور پودوں کا گھر بھی ہیں۔

Published: undefined

سندربن میں بھٹکتا دل

اس جنگل سے محبت کا ہی اثر ہے کہ امیتابھ گھوش کو شدت کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کے زمین پر پڑنے والے اثرات نے پریشان اور کسی حد تک بے چین کر رکھا ہے۔ انہیں احساس ہے کہ کرہ ارض پر ماحولیاتی تبدیلیوں سے قدرتی آفات میں اضافہ غیر معمولی ہو چکا ہے اور ان کی وجہ سے جنوبی ایشیائی ممالک کو موسلا دھار بارشوں اور شدید سیلابوں کا سامنا ہے۔

Published: undefined

جرمنی میں آنے والے حالیہ سیلاب کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جرمنی میں ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے اور دوسری جانب غریب ملکوں کو بھی بارشوں اور سیلابوں کا سامنا رہتا ہے۔ جرمنی میں سیلاب کو بھی کلائمیٹ چینج کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔

Published: undefined

ماحولیاتی تبدیلیاں ایک حقیقت

امیتابھ گھوش کا خیال ہے کہ لوگ ابھی تک ماحولیاتی تبدیلیوں کو امیر اقوام کا ڈھکوسلا خیال کرتے ہوئے انہیں تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک عام بات ہے کہ بہترین بنیادی ڈھانچہ اور امارت سے لوگ قدرتی آفات سے محفوظ رہ سکتے ہیں لیکن جرمنی کے حالیہ سیلاب سے اس خیال کی نفی ہوتی ہے۔

Published: undefined

انہوں نے اس تناظر میں شمالی کیلیفورنیا کی جنگلاتی آگ کا حوالہ بھی دیا کہ ایسی قدرتی آفت دنیا کے ایک امیر ملک میں بھی دیکھی گئی۔ گھوش کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں صرف انسانی بستیوں کو تاراج نہیں کر رہی بلکہ انسانوں کو معاشی اعتبار سے بھی کمزور کر کے ان میں بھوک اور تنگی پیدا کر رہی ہیں۔ اس کی مثال میں انہوں نے واضح کیا کہ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے انگوروں کے باغات میں شراب کشید کرنے والے ایک بڑے تاجر کو دھوئیں اور گرد و غبار سے شدید پریشانی لاحق ہے کیونکہ انگوروں کے خوشے مناسب انداز میں شاخوں پر پک ہی نہیں پا رہے۔

Published: undefined

سائی فائی کے علاوہ کلائی فائی بھی

حالیہ عشروں میں کئی ناولوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں سے جنم لینے والی قدرتی آفتوں کو پرزور انداز میں موضوع بنایا گیا ہے۔ اس میں سن انیس سو اٹھاسی میں شائع ہونے والا جارج ٹرنر کا ناول سمندر اور گرمی یا 'دا سی اینڈ سمر‘ کو اہم قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد سن دو ہزار بارہ میں چھپنے والا باربرا کنگ سالوور کا ناول 'فلائیٹ بی ہیویئر‘، سن دو ہزار پندرہ میں جیمز بریڈلی کا 'کلیڈ‘ اور سن دو ہزار اٹھارہ میں رچرڈ پاورز کا 'دا اوور سٹوری‘ خاص طور پر نمایاں ہیں۔ اس سلسلے میں سن دو ہزار انیس میں گھوش کے ناول 'گن آئیلینڈ‘ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

Published: undefined

اس طرز کے فکشن کو ادب کی ایک نئی صنف قرار دیا جا رہا ہے اور اسی لیے اسے 'ایکو فکشن‘ (ایکولوجیکل فکشن) کہا جاتا ہے۔ یہ نئی صنف 'سائی فائی‘ (سائنس فکشن) کی طرح کلائی فائی (کلائمیٹ فکشن) کے طور پر بھی مقبول ہو رہی ہے۔

Published: undefined

اس تبدیلی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ادیب ماحولیاتی مسائل کو اپنے ناولوں میں سمونے میں ہچکچاہٹ سے دوچار نہیں ہیں۔ ایسے فکشن سے گھوش کسی حد تک مطمئن نہیں ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایسے ناولوں میں ایک حقیقت کو کسی حد تک غیرحقیقی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے، جو پڑھنے والے کو ایک خیالی دنیا میں لے جاتا ہے۔ گھوش کے نزدیک ماحولیاتی تبدیلیوں کو غیر حقیقی انداز میں ناول یا فکشن میں بیان کرنا اصل مسئلے سے نظریں چرانا اور حقائق سے انکار قرار دیا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined