مرحوم ظفر آغا / قومی آواز
سینئر صحافی ظفر آغا، ہندوستانی صحافت کا وہ ممتاز نام ہے جس نے ہندوستان میں اپنے قلم سے اپنی پہچان بنائی۔ آج ان کی پہلی برسی ہے یعنی آج کی ہی تاریخ کو گزشتہ سال وہ ہم سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے تھے، ان کی دوراندیش گفتگو اور ذہن کو جھنجھوڑنے والی ان کی تحریروں سے ہم جیسے بیشتر لوگ محروم ہو گئے۔
ان کا کیریئر چار دہائیوں پر محیط تھا، جس کا آغاز 1979 میں لنک میگزین سے ہوا، جہاں انہوں نے اپنے شاندار سفر کی بنیاد رکھی۔ ظفر آغا کی صحافت سے وابستگی اور لگن ان کے پورے دور میں عیاں تھی، کیونکہ انہوں نے پیٹریاٹ، بزنس اینڈ پولیٹیکل آبزرور، انڈیا ٹوڈے (بطور پولیٹیکل ایڈیٹر)، ای ٹی وی اور روزنامہ انقلاب جیسی مختلف اشاعتوں میں نمایاں تعاون کیا۔
Published: undefined
اپنے صحافتی دور کے آخر میں وہ نیشنل ہیرالڈ گروپ سے جڑے اور اس دور میں ان کو ایسے اخبار کی اور اخبار کو ایسے مدیر کی ضرورت تھی یعنی وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم تھے۔ یہاں انہوں نے قومی آواز کے ایڈیٹر کے طور پر کام شروع کیا اور بعد میں نیشنل ہیرالڈ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف کا باوقار عہدہ سنبھالا۔ ان کی قیادت اور ادارتی ذہانت نے اشاعت کے بیانیے اور سمت کو تشکیل دینے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ اپنی صحافتی کامیابیوں سے ہٹ کر ظفر آغا اقلیتی تعلیمی اداروں کے سخت حامی تھے۔ انہوں نے 2017 تک قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی اداروں کے رکن کے طور پر خدمات انجام دیں۔
الہ آباد میں ظفر آغا کی ابتدائی زندگی نے ان کی مستقبل کی کوششوں کی بنیاد رکھی۔ ظفر آغا 1954 میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنی تعلیم یادگار حسینی انٹر کالج اور بعد میں الہ آباد یونیورسٹی سے حاصل کی، انگریزی ادب میں انہوں نے ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی۔ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہ ترقی پسند طلبہ تحریک میں سرگرم عمل رہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ سماجی تبدیلی اور جمہوری نظریات کے لیے زندگی کے آخری لمحات تک کوشاں رہے۔
Published: undefined
ظفر آغا تاحیات بائیں بازو کی سیاست سے اپنی وابستگی پر ثابت قدم رہے اور پسماندہ برادری و خواتین کے حقوق کے لئے سرگرم رہے۔ جب بھی میں ان سے گفتگو ہوتی تھی تو مجھے محسوس ہوتا تھا کہ ان کے دل میں خواتین کے لئے ایک نرم گوشہ ہے۔ میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ خواتین ہندوستانی سماج کا کمزور طبقہ تو ہیں ہی ساتھ میں ہم نے یعنی مرد حضرات نے ان کو ہمیشہ دبا کر رکھا ہے۔ یہ بات وہ صرف کہتے ہی نہیں تھے بلکہ عمل بھی کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خواتین کے مضامین کو نہ صرف ترجیح دیتے تھے بلکہ ان کو پوری عزت دیتے تھے۔
ظفر آغا ملک میں ہر طرح کی سیاست کو برداشت کر سکتے تھے لیکن فرقہ پرستی کی سیاست کو کبھی برداشت نہیں کر پاتے تھے۔ فرقہ پرستی میں وہ صرف ہندو فرقہ پرستی کے خلاف جھنڈا بلند نہیں کرتے تھے بلکہ وہ مسلم فرقہ پرستی کی اس سے زیادہ مخالفت کرتے تھے۔
Published: undefined
ظفر آغا صاحب جہاں سعودی عرب کی بنیاد پرستی کی کھل کر مخالفت کرتے تھے، وہیں ایران کی پالیسیوں پر بھی دوٹوک رائے رکھتے تھے۔ بائیں بازو کی سیاست پر یقین رکھنے والے ظفر آغا کبھی بھی امریکہ اور اس کی پالیسیوں کے حامی نہیں رہے۔ وہ یاروں کے یار تھے اور شاعری سے انہیں گہرا لگاؤ تھا۔ ان میں ایسا معصومانہ بچپنا تھا جو انہیں ہمیشہ متحرک اور مثبت رکھتا تھا۔
ظفر آغا کی وراثت ایک نڈر صحافی اور بصیرت والے رہنما کے طور پر آنے والی نسلوں کو متاثر کرتی رہے گی۔ انہوں نے ہندوستانی صحافت اور مجموعی طور پر سماج پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ اپنے صحافتی دور میں انہوں نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے، جن کا وہ اکثر اپنی گفتگو میں ذکر کرتے تھے، مگر اپنے نظریات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ آج ان کے بچھڑنے کو پورا ایک سال بیت چکا ہے لیکن ان کی شخصیت اور ان کے دئیے ہوئے رہنما اصول ہمیشہ ہمارے لیے مشعلِ راہ رہیں گے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined