بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار / Getty Images
بہار اسمبلی انتخابات اس بار کئی لحاظ سے غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ انتخابات الیکشن کمیشن کی متنازعہ ’ایس آئی آر‘ مہم کے بعد ہو رہے ہیں، جس نے پورے ملک میں ہلچل مچا دی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں اور شہری تنظیموں نے اس پر سخت اعتراض کیا کہ کمیشن کی شرائط اور مطلوبہ دستاویزات ہر شہری کے لیے فراہم کرنا ممکن نہیں۔ سب سے بڑا تنازعہ آدھار کارڈ کو مستند شناخت کے طور پر قبول نہ کرنے پر کھڑا ہوا، جس پر سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔ بالآخر کمیشن کو آدھار کارڈ کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔
راہل گاندھی نے اس مہم کو ’ووٹ چوری‘ کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے تیجسوی یادو کے ساتھ بہار بھر میں ووٹر بیداری مہم چلائی اور الیکشن کمیشن پر بی جے پی کے ساتھ سازباز کے الزامات لگائے۔ اگرچہ سپریم کورٹ میں اب بھی اس معاملے کی آخری سماعت باقی ہے، لیکن کمیشن نے انتخابات کا نوٹیفکیشن جاری کر کے عدالت کی مداخلت کا راستہ بند کر دیا ہے، کیونکہ قانوناً نوٹیفکیشن کے بعد عدالتی دخل ممکن نہیں۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ جن ووٹروں کو ووٹر لسٹ میں نام نہ شامل ہونے کی شکایت ہو وہ الیکشن کمیشن سے ہی رجوع کریں۔
Published: undefined
روایتی طور پر بہار کے انتخابات دو رخی ہوتے رہے ہیں، مگر اس بار پرشانت کشور کی جن سوراج پارٹی کی اسے سہ رخی بنانے کی کوشش ہے۔ دوسری جانب اویسی کی مجلس بھی سیمانچل کے مسلم اکثریتی علاقوں میں سرگرم ہے۔ آر جے ڈی سے اتحاد نہ ہونے کے بعد اویسی نے چندرشیکھر اور سوامی پرساد موریہ کے ساتھ نیا پلیٹ فارم بنایا ہے اور سو نشستوں پر امیدوار اتارنے کا اعلان کیا ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، پرشانت کشور اور اویسی دونوں شاید زیادہ سیٹیں نہ جیت سکیں، لیکن دونوں گٹھ بندھنوں کو نقصان پہنچا کر معلق اسمبلی کی راہ ضرور ہموار کر سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں بی جے پی کے لیے موقع بنے گا کہ وہ دولت، ایجنسیوں اور راج بھون کے ذریعے اپنے نمبر بڑھا لے۔
نوٹیفکیشن سے کچھ دن پہلے ہی مرکزی حکومت نے بہار کی لاکھوں خواتین کو دس دس ہزار روپے دے کر انتخابی اخلاقیات پر سوال کھڑا کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی نے ہمیشہ کی طرح فرقہ وارانہ رنگ چڑھانے کے لیے ’گھس پیٹھیوں‘ کا مسئلہ اٹھا دیا ہے، حالانکہ کمیشن کو ایس آئی آر کے دوران اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔
Published: undefined
لالو یادو، رابڑی دیوی اور تیجسوی یادو ایک نئے بدعنوانی سے متعلق مقدمے کی زد میں ہیں۔ اگلی سماعت 11 نومبر کو، یعنی دوسرے مرحلے کی پولنگ سے دو دن پہلے ہوگی۔ اگرچہ یہ عدالتی معاملہ ہے، لیکن امت شاہ کا یہ بیان کہ ’’تیجسوی کو چناؤ لڑنے لائق نہیں چھوڑیں گے‘‘ سیاسی طور پر معنی خیز ہے۔ آر ایس ایس اور ’گودی میڈیا‘ اس مقدمے کو انتخابی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
اس انتخاب میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ اپنی بقا کا ہے۔ وہ ریاستیں جہاں بی جے پی برسرِ اقتدار نہیں، وہاں کے مسلمان خود کو نسبتاً محفوظ سمجھتے ہیں۔ بہار کے 18 فیصد مسلمان بھی ووٹ دیتے وقت یہی سوچیں گے کہ ان پر کوئی یوگی آدتیہ ناتھ، ہیمنت بسوا سرما یا پشکر سنگھ دھامی نہ مسلط کر دیا جائے۔
اگر اسمبلی معلق ہوئی تو بی جے پی اس صورتحال کا پورا فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ وہ اپنی روایتی سیاست کے تحت خرید و فروخت کے ذریعے نتیش کو کمزور کر کے انہیں ’بہار کا ایکناتھ شندے‘ بنا سکتی ہے۔ اس کی جھلک اس بار سیٹوں کی تقسیم میں ہی دکھائی دی ہے۔ بی جے پی نے پہلی بار نتیش سے ’بڑے بھائی‘ کا درجہ چھین لیا ہے اور دونوں کے پاس 101-101 سیٹیں ہیں، مگر اتحادیوں چراغ پاسوان اور جیتن رام مانجھی کو 41 نشستیں دے کر بی جے پی نے عملی طور پر اپنی قوت 142 تک پہنچا لی ہے۔
Published: undefined
نتیش اگرچہ تجربہ کار سیاست دان ہیں، مگر ان کے کئی قریبی لیڈر جیسے للن سنگھ، کے سی تیاگی وغیرہ بی جے پی کے قریب ہیں۔ اس لیے انتخاب کے بعد کا منظرنامہ شاید انتخاب سے زیادہ دلچسپ ہو۔
بہار میں ووٹنگ ہمیشہ ذات پات کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ لالو یادو کی آر جے ڈی کا روایتی سہارا ’ایم وائی‘ یعنی مسلم-یادو فیکٹر رہا ہے۔ نتیش نے اس کا توڑ نکالتے ہوئے انتہائی پسماندہ طبقات اور اپنی کرمی برادری کو ساتھ جوڑ کر نئی سماجی قوت بنائی۔ خواتین میں ان کی مقبولیت سائیکل اسکیم اور شراب بندی جیسے اقدامات کی وجہ سے بڑھی۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ بھی ان کے ساتھ رہا، مگر اس بار ان کی ناپسندیدگی بڑھ گئی ہے، کیونکہ وقف قانون کے معاملے میں انہوں نے مودی حکومت کا ساتھ دیا۔
ملک بھر میں اب مسلمانوں کی پہلی پسند راہل گاندھی بن چکے ہیں۔ ان کی ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ نے بہار میں کانگریس کی موجودگی کو تقویت دی ہے، مگر تنظیمی سطح پر وہ ابھی آر جے ڈی اور جے ڈی یو کے ہم پلہ نہیں۔
Published: undefined
گزشتہ اسمبلی انتخابات میں تیجسوی نے دس لاکھ سرکاری ملازمتوں کے وعدے سے نوجوانوں میں جوش پیدا کیا تھا۔ اس بار بھی وہ اسی ایشو کو مرکز بنا رہے ہیں۔ بے روزگاری ملک گیر مسئلہ بن چکی ہے، اور بہار کے نوجوان ابھی پٹنہ میں ہونے والے لاٹھی چارج کو نہیں بھولے۔ گیارہ سال سے مرکز میں بی جے پی اور بیس سال سے ریاست میں نتیش حکومت کے باوجود روزگار کی صورتحال میں بہتری نہ آنے سے نوجوانوں کا اعتماد ٹوٹ چکا ہے۔
تیجسوی نے اس بار پپو یادو اور کنہیا کمار جیسے لیڈروں کو ساتھ جوڑ کر اپنی پرانی غلطی سدھارنے کی کوشش کی ہے۔ پپو یادو عوامی سطح پر مقبول ہیں، جبکہ کنہیا کمار نوجوانوں میں اثر رکھتے ہیں۔ اس اتحاد سے مہاگٹھ بندھن کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو بہار میں آر جے ڈی-کانگریس اتحاد کے حق میں فضا بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ مگر سیاست میں کچھ بھی یقینی نہیں۔ بی جے پی نے اپنے تمام آزمودہ ہتھکنڈے پھر سے آزمانے شروع کر دیے ہیں۔ ایسے میں بہار کا الیکشن صرف ایک ریاستی جنگ نہیں بلکہ قومی سیاست کے توازن کا امتحان بن چکا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined