فکر و خیالات

یو ایس ایڈ کے خاتمے کا فیصلہ، امریکی اثر و رسوخ کے لیے سنگین غلطی...اشوک سوین

یو ایس ایڈ کے خاتمے کا فیصلہ امریکی اثر و رسوخ کو کمزور کرے گا اور چین کو عالمی سطح پر تقویت دے گا۔ یہ محض مالی بچت کا معاملہ نہیں بلکہ ایک بڑی اسٹریٹیجک غلطی ہے جس کے دور رس نتائج ہوں گے

<div class="paragraphs"><p>یو ایس ایڈ</p></div>

یو ایس ایڈ

 

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ’یو ایس ایڈ‘ کو ختم کرنے کا فیصلہ نہ صرف ایک ناقص پالیسی ہے بلکہ یہ ایک تاریخی جغرافیائی و سیاسی غلطی بھی ہے۔ یہ درست ہے کہ یو ایس ایڈ کا ریکارڈ متنوع اور بعض اوقات متنازعہ رہا ہے لیکن اس کے خاتمے سے ایک ایسا خلا پیدا ہوگا جسے پُر کرنے کے لیے چین مکمل طور پر تیار ہے۔ یہ صرف غیر ملکی امداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک حکمت عملی کے حریف کو عالمی اثر و رسوخ پیش کرنے کے مترادف ہے۔

1961 میں صدر جان ایف کینیڈی کی جانب سے قائم کی گئی یو ایس ایڈ امریکی مفادات کو فروغ دینے کا ایک ذریعہ رہی ہے۔ امریکی امداد ہمیشہ ترقی سے زیادہ سیاسی فوائد کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس ایجنسی کے تحت چلنے والے پروگرام اکثر امداد حاصل کرنے والے ممالک کو امریکی مفادات کے مطابق پالیسیاں اپنانے، امریکی کمپنیوں کے لیے سازگار اقتصادی اصلاحات نافذ کرنے اور امریکہ کی فوجی حکمت عملی میں معاونت فراہم کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ امداد عام طور پر خود انحصاری کو فروغ دینے کے بجائے قلیل مدتی حل پر زور دیتی ہے، جس سے ترقی پذیر ممالک ایک مستقل بیرونی انحصار کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

Published: undefined

ان تمام خامیوں کے باوجود یو ایس ایڈ امریکی ’سافٹ پاور‘ کو مستحکم رکھنے کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔ بلاشبہ اس کا بنیادی مقصد امریکی مفادات کا تحفظ تھا لیکن اس نے واشنگٹن کو ان خطوں میں موجود رہنے کا موقع دیا جہاں چین اور روس اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتے تھے۔ یو ایس ایڈ کے تحت امریکہ مختلف حکومتوں اور اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھتا تھا لیکن اس کے خاتمے سے یہ ممالک چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی طرف جھک جائیں گے۔ یو ایس ایڈ کے برعکس، چین کا سرمایہ کاری ماڈل قرضوں کے جال میں پھنسانے کی حکمت عملی پر مبنی ہے، جو ممالک کو مالی اور سیاسی طور پر اپنا محتاج بنا دیتا ہے۔

یو ایس ایڈ کے خاتمے کا فیصلہ مالی بچت نہیں بلکہ چین کو اپنے عالمی اثر و رسوخ کو وسعت دینے کا کھلا موقع دینا ہے۔ یہ اقدام ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب عالمی طاقتوں میں مسابقت بڑھ رہی ہے اور امریکہ کے لیے عالمی سطح پر اپنی پوزیشن مضبوط رکھنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ چین پہلے ہی عالمی سطح پر بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے معاملے میں امریکہ سے آگے نکل چکا ہے، اور یو ایس ایڈ کے خاتمے کے بعد وہ ابھرتی ہوئی معیشتوں پر مزید غلبہ حاصل کر سکے گا۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف امداد حاصل کرنے والے ممالک متاثر ہوں گے بلکہ امریکہ کی عالمی حکمت عملی بھی شدید متاثر ہوگی۔

Published: undefined

ٹرمپ کا یو ایس ایڈ کے خاتمے سے متعلق نقطہ نظر اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ غیر ملکی امداد قومی سلامتی اور اقتصادی حکمت عملی کا ایک بنیادی عنصر نہیں بلکہ محض ایک خیراتی عمل ہے۔ یہ معاملہ صرف غیر مؤثر پالیسیوں یا کرپشن کا نہیں بلکہ ان خطوں میں امریکی شمولیت کے تسلسل کا ہے جہاں واشنگٹن اپنا اثر و رسوخ کھونا نہیں چاہتا۔ کئی دہائیوں سے یو ایس ایڈ نے اتحادیوں کے استحکام، جنگ زدہ علاقوں میں استحکام، اور امریکی نظریات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے خاتمے سے چین اور دیگر امریکی مخالف طاقتوں کو افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا میں اپنا اثر بڑھانے کا موقع ملے گا۔

اس فیصلے کا ایک اور نقصان یہ ہے کہ اس سے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کمزور ہوگی۔ انتہا پسندی، بڑے پیمانے پر ہجرت اور سیاسی عدم استحکام کے بنیادی اسباب، جیسے کہ غربت، بے روزگاری اور تعلیمی فقدان، وہ مسائل ہیں جنہیں یو ایس ایڈ کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔ اگرچہ اس ایجنسی کے اقدامات ہمیشہ مؤثر ثابت نہیں ہوئے، لیکن اس کے بغیر یہ مسائل مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں، جو بالآخر امریکی سلامتی کو بھی متاثر کریں گے۔ یو ایس ایڈ کے خاتمے سے ترقیاتی امداد کی ضرورت ختم نہیں ہوگی بلکہ صرف اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ یہ خلا امریکہ کے حریف ممالک پُر کریں گے اور کمزور معیشتوں پر اپنا تسلط مضبوط کر لیں گے۔

Published: undefined

یہ تصور بھی غلط ہے کہ یو ایس ایڈ کو ختم کرنے سے امریکی ٹیکس دہندگان کے پیسے بچیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی بجٹ میں غیر ملکی امداد کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، جو فوجی اخراجات کے مقابلے میں نہایت معمولی ہے۔ مثال کے طور پر، 2023 میں امریکہ نے غیر ملکی امداد کے لیے تقریباً 64.7 ارب ڈالر مختص کیے، جبکہ اسی سال دفاعی اخراجات کا بجٹ 916 ارب ڈالر تھا۔ یہ واضح تضاد ہے۔ اگر اصل مسئلہ مالی ذمہ داری ہوتا تو دفاعی بجٹ میں اضافے کو بھی کڑی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑتا، بجائے اس کے کہ ایسی ایجنسی کو بند کر دیا جائے جو کم لاگت میں وسیع پیمانے پر اسٹریٹیجک فوائد فراہم کر رہی ہے۔

یہ تقریباً یقینی ہے کہ یو ایس ایڈ کے خاتمے کے فیصلے کو قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ اس کی تشکیل امریکی کانگریس کے ایک قانون کے تحت کی گئی تھی۔ حتیٰ کہ کچھ ریپبلکن سینیٹرز بھی اس کے مضمرات کو سمجھ رہے ہیں اور اسے ایک بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں۔ سینیٹر تھام ٹِلِس سمیت کئی قانون سازوں نے خبردار کیا ہے کہ اس ایجنسی کو مکمل طور پر بند کرنا ایک ایسا قدم ہوگا جس کے دور رس جغرافیائی و سیاسی نتائج برآمد ہوں گے۔

Published: undefined

یو ایس ایڈ کے حوالے سے فیصلہ یا تو اس کو بغیر کسی اصلاح کے قائم رکھنے یا مکمل طور پر ختم کرنے کے درمیان نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اس ایجنسی میں بہتری کی ضرورت ہے تو اسے امداد حاصل کرنے والے ممالک کے مفادات اور امریکی حکمت عملی کو مدنظر رکھتے ہوئے شفافیت اور خود انحصاری کے اصولوں پر استوار کرنا ہوگا۔ یو ایس ایڈ کا ایک مؤثر ماڈل چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا ایک مضبوط متبادل بن سکتا ہے۔

ٹرمپ کے اس فیصلے کو تاریخ میں ان کی سب سے بڑی خارجہ پالیسی کی غلطی کے طور پر یاد رکھا جائے گا، ایک ایسا اقدام جس نے امریکہ کے عالمی اثر و رسوخ کو کمزور کیا اور چین کو ایک بڑی جیت دلوائی۔ اس غیر دانشمندانہ فیصلے کے نتائج آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑیں گے۔

(مضمون نگار اشوک سوین اوپسالا یونیورسٹی میں امن اور تنازعہ کی تحقیق کے پروفیسر ہیں)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined