تصویر بشکریہ نواب علی اختر
انبیاءؑ کی سرزمین فلسطین کے غزہ پراسرائیل نے کچھ وقفہ کے بعد پھر وحشیانہ بربریت کا سلسلہ شروع کردیا ہے جس گزشتہ 3 روز کے اندرصہیونی فوج کی بمباری سے 500 سے زائد نہتے اور بے قصورفلسطینی جاں بحق ہوگئے جن میں تقریباً 200 معصوم بچے تھے۔ یہودی مملکت نے غزہ پر حماس کے کارکنوں کو نشانہ بنانے کا بہانہ پیش کرتے ہوئے یہ وحشیانہ کارروائی اس وقت کی ہے جبکہ ماہ رمضان المبارک چل رہا ہے اور اسرائیل۔ حماس کے درمیان جنگ بندی بھی نافذ ہے۔ جنگ بندی کی صریح خلاف ورزی پہلے بھی کی گئی تھی اور معمولی کارروائیاں اسرائیل نے کی تھیں تاہم اب جو وحشیانہ کارروائی کی گئی ہے وہ ہیبت ناک کہی جاسکتی ہے۔
Published: undefined
تقریباً 15 ماہ کی ہلاکت خیز اور تباہ کن جنگ کے بعد فلسطینی عوام کو کچھ راحت ملی تھی، حالانکہ ان کی دنیا کو اجاڑ دیا گیا اور ان کے گھروں کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ہے، ہزاروں فلسطینیوں کو شہید اور لاکھوں کو بے گھر کردیا گیا ہے۔ اس کے باوجود فلسطینیوں نے ہمت نہیں ہاری اور وہ اپنے اجڑے گھروں کی طرح اجڑی ہوئی زندگیوں کو بہتر بنانے کی پہل کر ہی رہے تھے کہ انہیں ایک بار پھر وحشیانہ بربریت کا نشانہ بنادیا گیا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ حملہ حماس کے کارکنوں کو نشانہ بنانے کیلئے کیا گیا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک منظم منصوبے کے تحت فلسطینیوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور غزہ پر امریکی تسلط اور قبضہ کو یقینی بنانے کی سمت پیشرفت کی کوشش کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
ماہ مقدس میں اس طرح کی نسل کشی انتہائی قابل مذمت اور اسرائیل و امریکہ کے وحشیانہ عزائم کا ثبوت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا اور خاص طور پر عرب و مسلم دنیا اس کے خلاف آواز اٹھائے اور ایسے وحشیانہ حملوں اور کارروائیوں کو روکنے کی کوشش کی جائے۔ فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنا انصاف کا تقاضہ ہے اور بحیثیت پڑوسی ان عرب ممالک کی ذمہ داری بھی ہے جو انہیں پوری کرنی چاہئے۔ بین الاقوامی اداروں بالخصوص عالمی فوجداری عدالت کو دیانتدارانہ اور انصاف پسندانہ رول ادا کرتے ہوئے غزہ میں انسانی جانوں کی حفاظت کرنا چاہئے۔ کیونکہ اسرائیل اور امریکہ غزہ یا فلسطین کوپوری طرح تباہ کرنے پرآمادہ ہیں تاکہ وہ اپنے جابرانہ منصوبوں کوعملی جامہ پہنا سکیں۔
Published: undefined
یہی وجہ ہے کہ صہیونیوں کی پشت پناہی کرنے والا امریکہ بھی غزہ سے فلسطینیوں کے انخلاء کی بات کر رہا ہے جس سے قابض ریاست کے حوصلوں کو تقویت مل رہی ہے۔ ان کے عزائم اور منصوبے صاف نہیں ہیں لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی قیمت پر غزہ پرقبضہ کرلیا جائے اور فلسطینیوں کو ان کی ہی سرزمین سے نکال کر باہر کردیا جائے۔ یہ ایک ظالمانہ منصوبہ ہے اور اس کو کامیاب یا پورا ہونے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے۔ایسا کرکے ناجائز صیہونی مملکت کے وجود کوجائز ٹھہرانے کی کوشش کی جارہی ہے اوراس کی حفاظت کو یقینی بنایا جا رہا ہے لیکن فلسطینیوں کی حفاظت پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے اورعلی الاعلان عالمی فوجداری عدالت کو چیلنج کیا جارہاہے۔
Published: undefined
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کو دنیا بھر میں انصاف کا عالمی نگہبان سمجھا جاتا ہے لیکن حالیہ واقعات نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ یہ ادارہ بھی طاقتور ممالک کے زیر اثر ہے۔ آئی سی سی کے فیصلے اگرچہ کاغذ پر انصاف کا تاثر دیتے ہیں مگر حقیقت میں یہ عدالت کمزور ممالک کے رہنماوں کو نشانہ بنانے کا آلہ بن چکی ہے جب کہ طاقتور ممالک کے سربراہان کو کھلی چھوٹ دی جاتی ہے، چاہے ان پرکتنے ہی سنگین جرائم کے الزامات کیوں نہ ہوں۔ فلپائن کے سابق صدر ر وڈریگو ڈوٹرٹے کی گرفتاری اس کی تازہ مثال ہے۔ ان پراپنی انسداد منشیات مہم کے دوران ہزاروں افراد کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے قتل کر وانے کے الزامات میں دی ہیگ لے جایا گیا ہے۔
Published: undefined
ان ہلاکتوں کو عالمی برادری نے ماورائے عدالت قتل قرار دیا اور انسانی حقوق کے علم بردار حلقے اس گرفتاری کو انصاف کی جیت قرار دے رہے ہیں لیکن اس عدالت نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف بھی جنگی جرائم کے وارنٹ جاری کیے تھے، یہ ایک تاریخی فیصلہ تھا۔ یہ فیصلہ دنیا بھر کے انصاف پسند حلقوں میں امید کی کرن بن کر آیا تھا کہ شاید اب طاقتور رہنماوں کو بھی جواب دہ ٹھہرایا جائے گا، مگر یہ امید ایک سراب ثابت ہوئی۔ نیتن یاہو جن پر فلسطین کے علاقے غزہ میں معصوم شہریوں کے قتل، اسپتالوں اور رہائشی عمارتوں کی تباہی اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں جیسے سنگین الزامات ہیں نہ صرف آزاد ہیں بلکہ وہ غیرملکی سرکاری دورے پر ہنگری جانے والے ہیں۔
Published: undefined
حیرت انگیز طور پر ہنگری نے آئی سی سی کو دھمکی دی ہے کہ اگر نیتن یاہو کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی تو وہ عدالت سے علیحدگی اختیار کر لے گا۔ یہ تضاد کسی بھی باشعور شخص کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ آخرکیوں ڈوٹرٹے کو دی ہیگ کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے لیکن نیتن یاہو کو عالمی سطح پر سفارتی پروٹوکول کے ساتھ خوش آمدید کہا جاتا ہے؟ یہ سب اس لیے ہے کہ عالمی انصاف کے اصول طاقت کے مطابق بدلتے ہیں۔ فلپائن جیسے ترقی پذیر اورکمزور ملک کے رہنما کو گرفتار کرنا آسان ہے کیونکہ اس کے پیچھے کوئی بڑی طاقت نہیں ہے مگر اسرائیل جسے امریکہ اور یورپی طاقتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے، اس کے رہنما کو پکڑنا تقریباً ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔ چاہے اس پر انسانی حقوق کی جتنی بھی خلاف ورزیاں ثابت ہو چکی ہوں۔
Published: undefined
نیتن یاہو کے معاملے میں آئی سی سی نے ایک مثبت قدم اٹھایا تھا مگر اس پر عمل درآمد نہ ہونا اس کی شبیہ کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ یہ ایک موقعہ تھا کہ عالمی برادری کو دکھایا جاتا کہ انصاف اندھا ہوتا ہے نہ کہ طاقت دیکھ کر آنکھیں بند کرلیتا ہے مگر ہوا اس کے برعکس۔ آئی سی سی نے اپنی کمزوری واضح کردی ہے۔ آج ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر عالمی انصاف کے ادارے اپنے فیصلوں پر عمل نہ کرا سکیں تو وہ انصاف کے محافظ نہیں بلکہ طاقتور ممالک کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ جاتے ہیں۔ انصاف کو سیاسی مصلحتوں اور طاقت کے کھیل سے آزاد ہونا ہوگا ورنہ آئی سی سی کی شبیہ مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ آج کے حالات میں یہ مطالبہ ضروری ہے کہ آئی سی سی کے تمام فیصلے چاہے وہ کسی بھی رہنما کے خلاف ہوں بغیرکسی سیاسی دباو کے نافذ کیے جائیں۔
Published: undefined
اگر نیتن یاہو کے خلاف جاری وارنٹ پر عمل نہیں ہوتا اور انھیں اس طرح آزادی سے گھومنے دیا جاتا ہے تو پھر یہ ادارہ انصاف کے بجائے طاقتور ممالک کے تحفظ کا ذریعہ بن جائے گا اور یہ عالمی امن اور انسانیت کے لیے ایک خطرناک مثال ہوگی۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ انصاف کو رنگ، نسل، مذہب اور طاقت سے بالاتر ہونا چاہیے۔ نیتن یاہو اور ڈوٹرٹے کے معاملات نے یہ بات واضح کردی ہے کہ موجودہ نظام میں انصاف کمزورکے لیے الگ اور طاقتور کے لیے الگ ہے۔ اگر عالمی برادری نے اس دہرے معیارکو چیلنج نہ کیا تو دنیا میں ظلم کا یہ کھیل کبھی ختم نہیں ہوگا یا تو انصاف سب کے لیے ہو یا پھر کسی کے لیے نہ ہو۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined