علامتی تصویر / اے آئی
آزادی کے بعد جب ملک نے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش شروع کی تو ہمارے معمارانِ وطن نے دیگر شعبوں کے علاوہ فروغِ تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی کیونکہ بغیر تعلیم کے کوئی ملک اور قوم جہادِ زندگانی میں آگے نہیں بڑھ سکتی۔ وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو نے تعلیم جیسی اہم وزارت مولانا آزاد کے سپرد کر دی تھی جن کی دوراندیش سوچ اور فکر نے جہاں ایک طرف ملک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کی تشکیل کی، وہیں آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم جیسے تکنیکی تعلیم کے ادارے بھی قائم کیے تاکہ ان میدانوں میں اعلیٰ تعلیم کا دروازہ سماج کے ہر طبقے کے لیے کھل سکے اور نادار طبقے کے نوجوان جو انگلینڈ اور امریکہ جا کر اعلیٰ تعلیم نہیں حاصل کر سکتے، انہیں اندرونِ ملک مناسب اخراجات سے اعلیٰ تعلیم مل سکے اور وہ ملک کی تعمیرِ نو میں اپنا تعاون دے سکیں۔ تعلیم کو اگرچہ ریاستی زمرے میں رکھا گیا تھا، لیکن مرکزی حکومت بھی اس زمرے میں بھرپور مالی امداد فراہم کر کے ملک میں تعلیمی انقلاب لانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی ہے۔ ریاستی حکومتوں نے بھی اپنے حصے کا کردار بخوبی ادا کیا۔ گاؤں گاؤں پرائمری اور جونیئر ہائی اسکول کھولے گئے جہاں بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ حکومت کے ہائی اسکول اور انٹر کالجوں میں بہت معمولی فیس دے کر تعلیم حاصل کی جا سکتی تھی۔ اعلیٰ تعلیم بھی کوئی بہت مہنگی نہیں تھی، حالانکہ تب غربت اتنی تھی اور تعلیم کو لے کر اتنی بیداری بھی نہیں تھی، اس لیے خواندگی کی شرح بڑھتی تو رہی لیکن خاطرخواہ سطح پر نہیں پہنچی تھی۔ پھر بھی حکومتوں کی کوششیں جاری رہیں۔
Published: undefined
راجیو گاندھی جب وزیرِ اعظم ہوئے تو دیہی علاقوں میں معیاری تعلیم کے لیے جواہر نوودے ودھیالے اور کستوربہ ودھیالے ملک کے ہر ضلع میں کھلوائے۔ ساتھ ہی اعلیٰ اور تکنیکی تعلیم کے لیے بہت سی نئی یونیورسٹیاں بھی اس دوران قائم کی گئیں۔ 1990 میں جب نرسمہا راؤ وزیرِ اعظم اور ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیرِ مالیات بنے تو ہندوستانی معیشت میں پرائیویٹ شعبے کو فروغ دیا گیا۔ تعلیم کے شعبے میں بھی پرائیویٹ ادارے میدان میں آئے اور ملک میں نئی یونیورسٹیاں، میڈیکل، انجینئرنگ اور منیجمنٹ کالجوں کی بھرمار آ گئی۔ اگر یہ شعبہ کھولا نہ گیا ہوتا تو شاید حکومتیں روایتی طریقے سے ایسے کالج اور یونیورسٹیاں نہ کھول پاتیں اور ان میں داخلہ ایک کر دار بن جاتا۔ لیکن اس کا منفی پہلو یہ تھا کہ تعلیم مہنگی ہوتی چلی گئی اور ان فائیو اسٹار کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ ہر بچے کے لیے ممکن نہیں تھا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اس کا حل بینکوں سے تعلیمی قرض کا انتظام کر کے نکالا جہاں کم شرحِ سود پر طلبہ کو قرض مل جاتا تھا جس کی ادائیگی انہیں ملازمت ملنے پر قسطوں میں کرنی ہوتی تھی۔
Published: undefined
اس پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ ملک کی تعمیر اور ترقی کے لیے فکر مند حکومتیں تعلیم پر سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ دیتی ہیں لیکن اب جو سرکاری اعداد و شمار سامنے آ رہے ہیں وہ تشویش میں مبتلا کرنے والے ہیں۔ ایک سرکاری ادارہ یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن (یو ڈی آئی ایس ای) کی 2023-24 کی رپورٹ کے مطابق اس تعلیمی سال میں 37 لاکھ بچوں کا کم اندراج ہوا ہے جن میں 16 لاکھ بچیاں شامل ہیں۔ حکومت کی وضاحت کے مطابق یہ کمی اعداد و شمار جمع کرنے کے نئے طریقوں اور ڈبل اندراج روکنے کی وجہ سے آئی ہے لیکن یہ محض حقیقت سے منہ چھپانا ہے کیونکہ بینکوں سے تعلیمی قرض بھی کم ہوئے ہیں۔ دونوں کو ملا کر دیکھیں تو حالات کی سنگینی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ معاملہ صرف اعداد و شمار کا نہیں، ملک کے بچوں اور خود ملک کے مستقبل کا بھی معاملہ ہے کیونکہ جب بچوں پر تعلیم کے دروازے بند ہوں گے تو کئی نقصان دہ اور منفی دروازے ان کے لیے کھل جائیں گے۔ کہیں یہ سب کچھ کسی سوچی سمجھی سازش کا حصہ تو نہیں؟ راہل گاندھی نے یوں ہی نہیں کہا ہے کہ بی جے پی کی حکومت ایکلویہ کی طرح نوجوانوں کا انگوٹھا کاٹ کر ان کا مستقبل برباد کر رہی ہے۔
Published: undefined
ملک میں قریب پانچ کروڑ طالب علم ہیں۔ ریزرو بینک آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان میں قریب 25 سے 30 لاکھ طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بینک سے تعلیمی قرض کی ضرورت پڑتی ہے۔ بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرنے والے 75 فیصدی طلبہ بینک سے قرض لے کر تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جاتے ہیں۔ 2023-24 کے تعلیمی سال میں صرف سات لاکھ طلبہ تعلیمی قرض حاصل کر سکے اور 75 فیصدی طلبہ تعلیمی قرض سے محروم رہے جس کی وجہ سے ان کے سرپرستوں کو مہنگے شرحِ سود یعنی 18-20 فیصد سالانہ پر پرسنل لون لینا پڑا، جبکہ تعلیمی قرض پر شرحِ سود 8-10 فیصدی ہوتی ہے۔ تعلیم کی طرف سے حکومت کی یہ بے مہری افسوسناک، شرمناک اور تشویشناک ہے۔ ایک طرف حکومت دھنا سیٹھوں کا کھربوں روپیہ کا بینک قرض معاف کر دیتی ہے، دوسری طرف تعلیمی قرض کے لیے دروازے مسدود کرتی جا رہی ہے۔ یہی نہیں حکومت نفرت کا پرچار کرنے والی فلموں کا ٹیکس معاف کر دیتی ہے جبکہ کتابوں اور کاپیوں پر 18-20 فیصدی جی ایس ٹی لگاتی ہے۔ کورس کی کتابوں کے پبلشروں کو بھی لوٹ کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ کتابوں کے دام طے کرنے کا کوئی سرکاری فارمولہ نہیں ہے۔ پبلشر من مانی داموں پر کتابیں فروخت کرتے ہیں۔ پہلے غریب طلبہ پرانی کتابیں خرید کر کام چلا لیتے تھے یا بڑے بھائی بہن کی کتابیں چھوٹے بھائی بہنوں کے کام آ جاتی تھیں۔ اب ہر سال کتابیں بدل جاتی ہیں۔ اب کتابوں پر کور جتنے پیسوں میں چڑھتا ہے، اتنے میں پہلے ایک سال کی پڑھائی پوری ہو جاتی تھی۔ آنجہانی منموہن سنگھ کی حکومت نے حقِ تعلیم قانون بنا کر نادار غریب بچوں کی اچھے تعلیمی اداروں میں داخلے کا دروازہ کھولا تھا، مودی حکومت نے یہ دروازہ بھی کم و بیش بند ہی کر دیا ہے۔ اسکول انتظامیہ اور پبلشروں کی من مانی جاری ہے۔ کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔
Published: undefined
دوسری طرف اتر پردیش میں ہی ہزاروں بیسک اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کیونکہ بقول سرکار، ان میں خاطر خواہ طلبہ نہیں ہیں۔ تکنیکی اسکولوں (ای ٹی آئی) کو نجی ہاتھوں میں دینے کی بھی خبریں ہیں جہاں سیکڑوں روپے والی فیس لاکھوں میں ہو جائے گی۔
ویسے تو حکومت کی تعلیم کی طرف سے اس غیر ذمہ دارانہ پالیسی کا اثر سماج کے ہر طبقے پر پڑے گا لیکن سب سے زیادہ متاثر مسلم اور دلت طبقہ ہوگا۔ سابقہ کانگریسی حکومتوں نے مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کئی وظائف کا اعلان کیا تھا جنہیں مودی حکومت نے بند کر دیا ہے۔ تعلیم کے بغیر کسی ملک کی تعمیر اور ترقی نہیں ہو سکتی۔ موجودہ حکومت کیا سوچ کر اور کس منصوبے کے تحت تعلیم کی طرف سے یہ معاندانہ رخ اختیار کر رہی ہے، یہ سمجھ پانا مشکل ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined