سری اکال تخت، تصویر سوشل میڈیا
تصویر: فیس بک صفحہ (شری اکال تخت)
یہ پرانی کہانی کا محض نیا باب نہیں ہے۔ امرتسر کے ’اکال تخت‘ اور بہار کے ’تخت شری پٹنہ صاحب‘ کے درمیان ٹکراؤ کے حالات پہلے بھی کئی بار سامنے آئے ہیں۔ اس بار حالات مختلف اس لیے ہیں کہ گزشتہ کچھ وقت سے لگاتار جتھہ داروں کی تقرری اور انھیں ہٹائے جانے کو لے کر شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی یعنی ایس جی پی سی جس طرح تنازعات میں پھنسی رہی ہے، تازہ ٹکراؤ بھی اسی کی اگلی کڑی بن گیا ہے۔ یہ کسی بڑے مرض کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے۔
Published: undefined
تازہ تنازعہ کچھ وقت پہلے اُس وقت شروع ہوا جب ’تخت شری پٹنہ صاحب‘ کے جتھہ دار گیانی رنجیت سنگھ گوہر کو مالی بے ضابطگیوں کے الزام میں ان کے عہدہ سے ہٹا دیا گیا۔ گوہر بادل کنبہ کے نزدیکی مانے جاتے ہیں۔ ایس جی پی سی پر بادل فیملی کی گرفت کے سبب پنجاب کے تینوں تختوں کے جتھہ دار ملے اور گوہر کو بحال کر دیا گیا۔
Published: undefined
یہ بحالی سکھ پنتھ کے پانچوں تختوں کے درمیان 2008 میں بنے ایک اتفاق کے برعکس تھا۔ اس وقت بھی پٹنہ صاحب اور اکال تخت کے درمیان تنازعہ بہت بڑھ گیا تھا۔ بعد میں بیچ بچاؤ ہوا اور طے کیا گیا کہ پانچوں تخت مقامی مینجمنٹ کے معاملے میں اپنے فیصلے لینے کو آزاد ہوں گے۔ لیکن اگر پنتھ سے جڑا کوئی وسیع مسئلہ آئے گا تو پانچوں تخت مل کر فیصلہ کریں گے، یا پھر اکال تخت کا فیصلہ سب کے لیے قابل قبول ہوگا۔
Published: undefined
مقامی مینجمنٹ سے جڑے فیصلے کو پنجاب میں پلٹ دیا جانا ’تخت شری پٹنہ صاحب‘ کو ناگوار گزرا اور وہاں بھی اس کا بدلہ لینے کی ٹھان لی گئی۔ ایسے معاملوں میں فیصلے کا کام رہت-مریادا پر مستقل عمل کرنے والے پانچ سکھوں کو دیا جاتا ہے، جنھیں ’پنج پیارے‘ کہا جاتا ہے۔ اس طرح پٹنہ صاحب میں پنج پیارے بیٹھے اور انھوں نے اکال تخت کے کارگزار جتھہ دار کلدیپ سنگھ گڑگج، دمدما صاحب کے ٹیک سنگھ دھلانا کو تو تنکھیا قرار دیا ہی، اکالی دل کے لیڈر سکھبیر سنگھ بادل کو بھی تنکھیا قرار دے دیا۔ اس کے جواب میں پنجاب واقع تینوں تختوں– اکال تخت، تخت شری کیسر گڑھ صاحب اور دمدما صاحب کے مذہبی قائد بیٹھے اور پٹنہ صاحب میں یہ فیصلہ لینے والوں کو ہی تنکھیا قرار دے دیا۔ جواب میں پٹنہ صاحب کی طرف سے کہا گیا کہ جو لوگ پہلے ہی تنکھیا قرار دیے جا چکے ہیں، انھیں کسی کے بارے میں فیصلہ لینے کا کوئی حق نہیں، اس لیے یہ فیصلہ بے معنی ہے۔
Published: undefined
یہ لڑائی کہاں پہنچے گی، یا ثالثی کر کے معاملے کو اس بار بھی ختم کرا دیا جائے گا، یہ ابھی نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اس معاملے نے سکھ سیاست کے وہ سبھی جھگڑے سطح پر لا دیے ہیں جو اس سال کے شروع سے ہی کافی زور پکڑنے لگے تھے۔ رواں سال مارچ میں ایس جی پی سی نے اچانک ہی اکال تخت کے جتھہ دار گیانی رگھوبیر سنگھ کو ان کے عہدہ سے ہٹا کر ان کی جگہ گیانی کلدیپ سنگھ گڑگج کو کارگزار جتھہ دار بنانے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس فیصلے کی کئی تنظیموں نے تنقید کی۔ نہنگ جتھہ بندیوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وہ نئی تقرری کی مکمل مخالفت کریں گے۔ کوئی رخنہ نہ آئے، اس کے لیے گڑگج کو رات 2.50 بجے ہی عہدہ کا حلف دلوایا گیا۔
Published: undefined
تختوں کی اس لڑائی میں انگلی اٹھ رہی ہے ایس جی پی سی پر۔ ایس جی پی سی ہی جتھہ داروں کی تقرری کرتی ہے۔ وہ پنجاب کے سبھی گرودواروں اور پورے ملک کے تاریخی گرودواروں کا انتظام و انصرام دیکھتی ہے۔ پہلے ہریانہ کے گرودواروں کا کام بھی اسی کے ذمہ تھا۔ اب وہاں الگ پربندھک کمیٹی یعنی مینجمنٹ کمیٹی بن گئی ہے۔ ایس جی پی سی کی سیاست پر ہمیشہ سے ہی اکالی دل حاوی رہا ہے۔ لیکن جب اکالی سیاست پوری طرح بادل فیملی کے قبضے میں چلی گئی، تو اس پر بھی بادل فیملی حاوی ہو گیا۔ 1999 میں یہ حالت تب مزید واضح ہو گئی جب ایس جی پی سکے سربراہ گرچرن سنگھ توہڑا کی پرکاش سنگھ بادل سے نااتفاقی ہوئی۔ بادل نے توہڑا کی جگہ جاگیر کور کو ایس جی پی سی چیف بنوا دیا۔ توہڑا پھر بادل سے نااتفاقی ختم کرنے کے بعد ہی اس عہدہ پر لوٹ سکے۔
Published: undefined
اب جب اکالی دل تیزی سے اپنے مینڈیٹ سے محروم ہوتا جا رہا ہے، ایس جی پی سی کی سیاسی کشیدگی اور بڑھ گئی ہے۔ کچھ ہی مہینے قبل اکال تخت نے سکھبیر سنگھ بادل کو تنکھیا قرار دیا گیا تھا۔ قصور سے پاک ہونے کے لیے سکھبیر سنگھ بادل نے تخت کے ذریعہ دی گئی سزا کو قبول کیا تھا۔ مانا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ سکھبیر بادل کی گر چکی ساکھ کو پنتھک ووٹرس کے درمیان پھر سے قائم کیا جا سکے۔
Published: undefined
اکالی دل ہی نہیں، اس وقت ایس جی پی سی خود بھی ساکھ کے بحران سے گزر رہی ہے۔ کبھی ملک کے سب سے جمہوری مذہبی اداروں میں شمار کی جانے والی ایس جی پی سی میں گزشتہ تقریباً ڈیڑھ دہائی سے انتخاب ہی نہیں ہوئے ہیں۔ ایس جی پی سی چیف اور اس کی مجلس عاملہ کا انتخاب ووٹنگ سے ہوتا ہے، جس میں عام سکھ ووٹنگ کرتے ہیں۔ لیکن 2011 کے بعد 2016 میں ہونے والے انتخاب ہوئے ہی نہیں۔ انتخاب نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ’سہج دھاری سکھوں‘ سے اس انتخاب میں ووٹ ڈالنے کا حق چھین لیا گیا۔ یہ معاملہ عدالت میں ہے۔ اس کے علاوہ ووٹر لسٹ بنانے جیسے کام نہیں ہوئے ہیں۔ ہریانہ کی کمیٹی الگ بن جانے کے بعد اب نئے سرے سے انتخابی حلقے بھی بنانے ہوں گے۔ یہ کام بھی نہیں ہو سکا ہے۔ سب سے بڑی بات ہے کہ اس کے انتخاب ہو سکیں، یہ فکر بھی کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔
Published: undefined
تختوں کے ٹکراؤ اور ایس جی پی سی کی ساکھ دونوں ہی پنتھک قیادت کی خامیوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ کبھی جو ایک بھروسہ مند ادارہ تھا، اب اس میں گروہ بندی، بکھراؤ اور سیاسی مداخلت سطح پر ہے۔ ایس جی پی سی کے سابق جنرل سکریٹری سکھدیو سنگھ بہور کہتے ہیں ’’جب شرومنی پربندھک کمیٹی ہی راستے سے بھٹکتی ہوئی نظر آ رہی ہے، تو کسے کیا قصوروار ٹھہرایا جائے؟‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined