فکر و خیالات

رپورٹ کارڈ سامنے آ گیا، تعلیمی نظام فیل… رشمی سہگل

پروفیسر ہیمنت کہتے ہیں کہ ایک ماہر تعلیم کے طور پر مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کے ماڈل کو پورے ملک میں قبول کیا جا رہا ہے۔ گجرات کی نام نہاد ترقی سطحی اور اس کی چمک تشہیر پر مبنی ہے۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر 

صرف گجرات میں 2020-25 کے درمیان 1.1 لاکھ لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے سے مرکزی حکومت کے پسندیدہ نعرے ’بیٹی پڑھاؤ، بیٹی بچاؤ‘ کی قلعی کھل گئی ہے۔ وزیر اعظم کی آبائی ریاست میں پانچ سالوں میں اسکول چھوڑنے والوں کی تعداد میں 341 فیصد کا حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ اب 2.4 لاکھ طلبا اسکول نہیں جا رہے ہیں۔ اندازہ ہے کہ پورے ہندوستان میں 65.7 لاکھ طلبا، جن میں 29.8 لاکھ لڑکیاں شامل ہیں، نے تعلیم کے دوران ہی اسکول چھوڑ دیا ہے۔ یہ اعداد و شمار پارلیمنٹ کے حال ہی میں منعقدہ سرمائی اجلاس میں کانگریس رکنِ پارلیمنٹ رینوکا چودھری کے ایک سوال کے جواب میں دیے گئے۔

Published: undefined

سوال یہ ہے کہ بچے پڑھائی کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ گجرات میں 5,000 سے زیادہ سرکاری اسکول بند کر دیے گئے ہیں۔ گجرات کے معروف ماہر تعلیم اور ماہر معاشیات پروفیسر ہیمنت کمار شاہ کا ماننا ہے کہ ایسا بنیادی طور پر پرائیویٹ ایجوکیشن کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا۔ اعداد و شمار بھی ان کی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی (2014 سے 2024) میں 8 فیصد سرکاری اسکولوں کے بند ہونے سے پرائیویٹ اسکول سیکٹر کو فائدہ ہوا اور اس دوران وہ 14.9 فیصد بڑھا۔ اس درمیان سرکاری اسکولوں میں سرمایہ کاری کم ہو گئی ہے اور موجودہ اسکولوں میں عملے کی شدید کمی ہے۔ ہیمنت شاہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارے یہاں 70,000 آسامیاں خالی ہیں، لیکن اساتذہ کی بھرتی کے لیے کوئی درست پالیسی نہیں۔‘‘

Published: undefined

12 فروری 2024 کو گجرات کے وزیر تعلیم نے اسمبلی میں تسلیم کیا کہ ریاست کے 32,000 سرکاری پرائمری اسکولوں میں سے 1,606 صرف ایک استاد کے سہارے چل رہے ہیں، جو جماعت 1 سے 8 تک کی تمام جماعتوں کو پڑھاتے ہیں۔ مختلف جماعتوں کے طلبا کو اکثر ایک ساتھ پڑھانا پڑتا ہے۔ پروفیسر شاہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اسکول کے انفراسٹرکچر کی کمی طلبا کے داخلوں میں گراوٹ اور اساتذہ کی قلت کو دیکھتے ہوئے اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ گجرات کا تعلیمی شعبہ سنگین بحران میں ہے۔‘‘

Published: undefined

گجرات کے پاٹن ضلع کے خان پور راجکووا بلاک کے ایک پنچایت رکن دیو دیسائی نے کہا کہ ’’میرے گاؤں میں اسکول بند ہونے کے بعد بچوں کو اسکول جانے کے لیے 5 سے 6 کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔ لوگ قدامت پسند ہیں اور بیٹیوں کو اتنی دور پڑھنے کے لیے بھیجنے سے جھجکتے ہیں۔ انہیں ان کی سلامتی کا ڈر ہے اور وہ جنسی ہراسانی کے حوالے سے فکرمند ہیں۔ ایک بار جب کوئی لڑکی اسکول چھوڑ دیتی ہے تو 16 سال کی ہوتے ہی اس کی شادی کر دی جاتی ہے۔‘‘

Published: undefined

گجرات واحد ریاست نہیں ہے جو ایسی مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ اتر پردیش کے محکمۂ تعلیم نے 10,000 اسکول بند کر دیے ہیں اور 29,000 پرائمری اسکولوں کو ضم کر دیا ہے، جسے ’تعلیمی وسائل کو بہتر بنانے کی پہل‘ بتایا گیا ہے۔ صرف 2025 میں تقریباً ایک لاکھ طلبا نے پڑھائی چھوڑ دی، جن میں 56,000 لڑکیاں ہیں۔ 2022-24 کے درمیان 7,41,626 طلبا نے تعلیم چھوڑ دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اتر پردیش میں پرائمری سطح پر ڈراپ آؤٹ تناسب کم ہے جو سینئر پارٹیوں میں بڑھ جاتا ہے۔

Published: undefined

بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کا حق (آر ٹی ای) ایکٹ، 2009 ایک مقررہ علاقے میں ابتدائی تعلیم تک رسائی کو لازمی بناتا ہے۔ ایکٹ کی دفعہ 6 کے تحت ان علاقوں کو نوٹیفائی کیا جاتا ہے اور ریاستی حکومتوں کو بچوں کے گھروں سے مقررہ فاصلے کے اندر اسکول کھولنے ہوتے ہیں۔ لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر پروفیسر روپ ریکھا ورما کا ماننا ہے کہ لاکھوں بچوں کو بنیادی تعلیم سے بھی محروم کرنا بی جے پی کی منظم علم مخالف مہم کا حصہ ہے۔ ورما کہتی ہیں کہ ’’وہ تعلیم، علم اور آزاد سوچ کو خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ لوگ کھلے ذہن کے ہوں... یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ نصابی کتابوں اور تاریخی حقائق کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا رہی ہے۔‘‘

Published: undefined

ماہرین تعلیم یہ بھی کہتے ہیں کہ کم طلبا والے اسکولوں کو ’خراب کارکردگی‘ والا کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ چھوٹے دیہات میں فطری طور پر بچے کم ہی ہوتے ہیں۔ آسام اور مدھیہ پردیش جیسی دیگر بی جے پی حکمراں ریاستوں کے اعداد و شمار بھی اتنے ہی خراب ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2023-24 میں آسام میں سیکنڈری سطح پر 25.1 فیصد، پرائمری سطح پر 6.2 فیصد اور اَپر پرائمری سطح پر 8.2 فیصد طلبا نے درمیان میں ہی پڑھائی چھوڑ دی۔ یہ بالترتیب 1.9 فیصد (پرائمری)، 5.2 فیصد (اپر پرائمری) اور 14.1 فیصد (سیکنڈری) کے قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔

Published: undefined

بہار میں سیکنڈری اسکول ڈراپ آؤٹ کی شرح ہندوستان میں سب سے زیادہ ہے۔ حالیہ اعداد و شمار (2023-24) کے مطابق جماعت 12 سے پہلے ہی تقریباً 21 سے 25.6 فیصد طلبا تعلیم چھوڑ دیتے ہیں، جو قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔ اگرچہ کچھ اعداد و شمار لڑکیوں کے معاملے میں معمولی بہتری دکھاتے ہیں، لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہار طلبا کو، خاص طور پر سیکنڈری اسکول کے لڑکوں (جماعت 9-10) کو اسکول میں برقرار رکھنے میں ناکام رہا ہے۔

Published: undefined

حیرت انگیز یہ ہے کہ 2024-25 میں تمل ناڈو میں بھی تینوں سطحوں پر اسکول چھوڑنے والوں کی شرح میں تیز اضافہ دیکھا گیا۔ یہ معلومات مرکزی وزارتِ تعلیم کی جانب سے جاری یونفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن پلس پر مبنی ہیں۔ طویل عرصہ تک ملک میں سب سے کم ڈراپ آؤٹ شرح برقرار رکھنے والی ریاست کے لیے یہ اعداد و شمار تشویشناک ہیں۔ تمل ناڈو اب پرائمری اسکول کے زمرے میں اپنی پڑوسی ریاستوں کیرالہ (0.8 فیصد)، کرناٹک، تلنگانہ (دونوں 0 فیصد) اور آندھرا پردیش (1.4 فیصد) سے پیچھے ہے۔ ان ریاستوں میں ڈراپ آؤٹ کی شرح کم درج کی گئی ہے۔

Published: undefined

جموں و کشمیر میں سرکاری اسکولوں کی تعداد میں 21.4 فیصد کمی دیکھی گئی۔ 2014-15 میں 23,874 سے گھٹ کر 2023-24 میں 18,758 رہ گئی۔ اسی دوران اوڈیشہ کے سرکاری اسکولوں میں 17.1 فیصد کمی آئی (58,697 سے 48,671)، اروناچل پردیش میں 16.4 فیصد (3,408 سے 2,847)، اتر پردیش میں 15.5 فیصد (1,62,228 سے 1,37,102)۔ جھارکھنڈ میں 13.4 فیصد کمی رہی (41,322 سے 35,795)، ناگالینڈ میں 14.4 فیصد (2,279 سے 1,952)، گوا میں 12.9 فیصد (906 سے 789) اور اتراکھنڈ میں 8.7 فیصد (17,753 سے 16,201)۔

Published: undefined

پنجاب میں اس مسئلہ کا ایک اور پہلو ہے۔ ریاست مرکزی حکومت سے ٹکراؤ کے باعث مالی بحران سے گزر رہی ہے۔ مرکز نے ’سمگر شکشا یوجنا‘ کے تحت 515 کروڑ روپے روک دیے ہیں۔ یہ جرمانہ اس لیے عائد کیا گیا کیونکہ پنجاب حکومت نے مرکز کی پی ایم-شری (پرائم منسٹر اسکولز فار رائزنگ انڈیا) اسکیم کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ فنڈنگ رکنے سے اسکولوں کی مرمت اور اساتذہ کی تنخواہوں پر براہِ راست اثر پڑا ہے۔

Published: undefined

وزیر مملکت برائے تعلیم جینت چودھری نے لوک سبھا کو بتایا کہ 2014-15 میں 11,07,101 سرکاری اسکول تھے جبکہ 2023-24 میں ان کی تعداد 10,17,660 رہ گئی۔ اسی دوران پرائیویٹ اسکولوں کی تعداد میں 42,944 کا اضافہ ہوا۔ یہ 2,88,164 سے بڑھ کر 3,31,108 ہو گیا۔ اگرچہ وزیر نے کمی کی وجہ نہیں بتائی، لیکن انہوں نے کہا کہ تعلیم آئین کی مشترکہ فہرست میں ہے اور اسکولوں کو کھولنا، بند کرنا اور ان کی معقولیت متعلقہ ریاستی حکومتوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی انتظامیہ کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔

Published: undefined

ہائی اسکول ڈراپ آؤٹ ایک اور مسئلے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ریاستوں میں چائلڈ لیبر میں اضافہ۔ پروفیسر شاہ کہتے ہیں کہ ’’گجرات میں ہم چائلڈ لیبر میں تیز اضافہ دیکھ رہے ہیں، جسے ریاستی حکومت تسلیم کرنا نہیں چاہتی۔ ایک ماہرِ تعلیم کے طور پر مجھے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی ماڈل کو پورے ملک میں قبول کیا جا رہا ہے۔ گجرات کی نام نہاد ترقی سطحی ہے اور تشہیر پر مبنی ہے۔‘‘

Published: undefined

حال ہی میں عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاکھوں ہندوستانی طلبا بنیادی پڑھائی اور ریاضی میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیت کے بجائے رٹنے پر زور دینے کے باعث ہندوستان دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے سیکھنے کے معاملے میں نچلے درجے پر ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ’سمگر شکشا پروگرام‘ کے تحت 2021 سے 2026 تک 3 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کر رہی ہے، لیکن ناقدین اس طرف توجہ دلاتے ہیں کہ اس میں سے زیادہ تر رقم خرچ ہی نہیں کی جا رہی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined