مفتی اعظم سعودی عرب / تصویر بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ
دنیا کی علمی و دینی فضا اس وقت گہرے غم میں ڈوب گئی، جب یہ خبر پہنچی کہ سعودی عرب کے جلیل القدر عالم دین، عالمِ ربانی، اور امت مسلمہ کے عظیم فقیہ، شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ اس دارِ فانی کو چھوڑ گئے۔ ان کی وفات صرف ایک ملک یا خطے کا نقصان نہیں بلکہ پوری امت اسلامی کے لیے ایک بڑا حادثہ ہے۔ وہ ایسے دور میں رخصت ہوئے جب امت کو علم، بصیرت، رہنمائی اور دین کے راستے پر مضبوطی کے ساتھ قائم رکھنے والے رجال کار کی شدید ضرورت ہے۔ ایسے میں ان کا دنیا سے جانا ایک بہت بڑا خلا ہے۔
شیخ عبدالعزیز آل شیخ 3 ذی الحجہ 1362 ہجری بمطابق 1943ء کو ریاض میں پیدا ہوئے۔ وہ اس خانوادے کے چشم و چراغ تھے جو اسلامی تجدید و احیاء کی تاریخ میں شیخ محمد بن عبدالوھاب کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ اس نسبت نے ہی نہیں بلکہ ان کی اپنی علمی جستجو اور تقویٰ و اخلاص نے انہیں کم عمری ہی سے علمی میدان میں ممتاز مقام پر پہنچا دیا۔ انہی اوصاف نے بعد کے زمانے میں انہیں وہ منصب عطا کیا جس پر فائز ہونا ہر کسی کے کے لیے کسی سعادت سے کم نہیں۔
Published: undefined
جب 1999ء میں سعودی عرب کے وقت کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ تعالیٰ کا انتقال ہوا تو ان کے جانشین کی حیثیت سے حکومتِ سعودی عرب نے جس شخصیت پر اعتماد کیا وہ یہی عبدالعزیز بن عبداللہ آل شیخ تھے۔ یوں وہ مفتی عام کی حیثیت سے تختِ فتویٰ پر بیٹھے اور مسلسل ربع صدی تک امت کی مسائل میں رہنمائی کرتے رہے۔ اس منصب نے ان کا نام براہِ راست سعودی عرب کی سب سے بڑی دینی اتھارٹی، یعنی ہیئة كبار العلماء اور اللجنة الدائمة للبحوث والإفتاء کے ساتھ وابستہ کردیا۔ ساتھ ہی انہیں رابطہ عالم اسلامی کے اعلیٰ ترین مجلس کی صدارت بھی حاصل رہی، جو عالمی سطح پر اسلام کی نمائندگی کرنے والا ایک معتبر ادارہ ہے۔
ان کی زندگی کا نمایاں پہلو یہی تھا کہ وہ فتویٰ، تحقیق اور رہنمائی کے ساتھ ساتھ امت کو دین کے صحیح تصور سے روشناس کراتے رہے۔ انہوں نے بے شمار فتاویٰ اور دینی کتب تحریر کیں جن میں عقائد، عبادات اور روزمرہ کے مسائل سے متعلق رہنمائی شامل ہے۔ ان کے بیانات ہمیشہ سادگی اور اخلاص کے پیکر ہوتے۔ وہ امت کے ہر طبقے سے براہِ راست اور بے تکلف خطاب کرتے، اور ان کی زبان و بیان میں وہ وقار اور وزن ہوتا جو صرف ایک ہی چیز سے حاصل ہوسکتا ہے: دل کا خلوص اور خدا کے حضور جواب دہی کا احساس۔
Published: undefined
ان کی زندگی کا ایک اور باب تاریخی خدمت ہے جو انہوں نے مسجد نمرہ، عرفات میں انجام دی۔ وہ چھٹے خطیب تھے جنہیں سعودی عہد میں خطبۂ عرفہ پیش کرنے کا اعزاز ملا۔ 1982ء سے 2015ء تک مسلسل پینتیس برس انہوں نے یہ عظیم منصبی خدمت انجام دی۔ اس تسلسل اور اس قدر طویل مدت تک خطبہ حج دینا اسلامی تاریخ میں کسی اور کو نصیب نہیں ہوا۔ ہر سال لاکھوں حجاج کی نگاہیں ان پر جم جاتیں اور ان کے لبوں سے نکلنے والے کلمات امت کے لیے مشعلِ راہ بن جاتے۔
ان کی شخصیت کا سب سے روشن پہلو ان کی وسطیت اور اعتدال تھا۔ وہ نہ شدت پسندی کے قائل تھے، نہ دین میں بے جا نرمی اور مداہنت کے۔ ان کے نزدیک دین کی اصل روح میانہ روی ہے، اور یہی وہ روش ہے جو امت کو اختلافات اور افراط و تفریط کے دلدل سے نکال سکتی ہے۔ اسی لیے ان کے معاصر علماء نے انہیں "رمز الوسطیة والتسامح" کہا۔ علامہ صالح بن فوزان الفوزان نے انہیں "العلامہ المبجل" قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ وہ علمی گہرائی، فتویٰ کی بصیرت اور قائدانہ کردار کے اعتبار سے امت میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس، جو مسجد حرام اور مسجد نبوی کے خطیب و امام ہیں، انہوں نے بھی اعتراف کیا کہ "شیخ عبدالعزیز آل شیخ منارة علم وورع ہیں، اور امت کو صحیح سمت دینے والے رہنما ہیں۔"
Published: undefined
یہی وجہ تھی کہ ان کی ہر رائے، ہر فتویٰ اور ہر خطاب امت میں وزن رکھتا تھا۔ نہ صرف سعودی عرب بلکہ پورا عالم اسلام ان کی بات کو سنجیدگی سے لیتا تھا۔ انہوں نے امت کو بارہا فرقہ واریت، تشدد اور انتہاپسندی سے بچنے کی نصیحت کی۔ ان کے نزدیک دین کی خدمت کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ علماء اعتدال کی راہ اختیار کریں اور عوام کو آسانی اور سہولت والا دین سمجھائیں، تاکہ لوگ دین سے قریب ہوں نہ کہ اس سے دور بھاگیں۔
شیخ عبدالعزیز آل شیخ کی زندگی اس بات کا مظہر ہے کہ ایک عالم کا کام صرف مدرسے یا مسجد کی چار دیواری تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ پوری امت کا رہنما ہوتا ہے۔ انہوں نے علمی محافل میں بھی اپنی روشنی بکھیری اور سیاسی و سماجی معاملات میں بھی امت کو وہی رائے دی جو قرآن و سنت کی روشنی میں حق اور صواب پر مبنی ہوتی۔
Published: undefined
آج جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں تو ہر طرف سے تعزیت اور غم کے پیغام آرہے ہیں۔ سعودی ذرائع ابلاغ نے انہیں "علم من أعلام الدین" کہا اور اعتراف کیا کہ ان کی جدوجہد نے ایک ایسی فکری اور علمی بنیاد رکھی ہے جس سے آنے والی نسلیں بھی روشنی حاصل کرتی رہیں گی۔
ان کا رخصت ہونا بظاہر ایک خلا ہے، مگر درحقیقت یہ امت کے لیے ایک نصیحت بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ابدی نہیں بنایا۔ ہر عالم، ہر رہنما اور ہر قائد کو ایک دن جانا ہے، لیکن ان کا چھوڑا ہوا علمی ورثہ ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ شیخ عبدالعزیز آل شیخ نے جو ورثہ چھوڑا ہے وہ کتابوں اور فتاویٰ کی شکل میں بھی ہے، اور ان کی خطبات اور نصیحتوں کی صورت میں بھی۔
بلاشبہ وہ ایک ستارہ تھے جو نصف صدی سے زیادہ امت کے آسمان پر چمکتا رہا، آج وہ غروب ہوگئے، مگر ان کی روشنی آنے والے زمانوں میں بھی امت کی رہنمائی کرتی رہے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined