فکر و خیالات

اکثریتی ہو یا اقلیتی مذہبی سیاست ملک کے لئے خطرناک ہے...عبید اللہ ناصر

مذہبی بنیاد پر سیاست چاہے اکثریتی ہو یا اقلیتی، ملک کے جمہوری ڈھانچے، اجتماعی ہم آہنگی اور ہندوستانی قومیت کے تصور کے لئے شدید نقصان دہ ہے۔ یہی تقسیم آر ایس ایس کے ایجنڈے کو مضبوط کرتی ہے

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر</p></div>

علامتی تصویر

 

ہندستان کی سیاست میں مذہب کی بنیاد پر شناخت اور نمائندگی کا سوال نیا نہیں ہے مگر گزشتہ چند برسوں میں اس رجحان نے جس رفتار سے شدت اختیار کی ہے، وہ نہ صرف فکری تشویش کا سبب ہے بلکہ قومی وحدت اور جمہوری ڈھانچے کے لئے کھلا خطرہ بھی بن چکا ہے۔ اکثریتی ہو یا اقلیتی مذہبی سیاست، دونوں کی بنیاد ہی اس سوچ پر قائم ہے کہ ووٹر ایک مذہبی خانے میں بند ہو کر صرف اسی بنیاد پر سیاسی فیصلہ کرے۔ یہی سوچ ملک کی سالمیت، اجتماعی ہم آہنگی اور آئینی مساوات کے خلاف جاتی ہے، اور یہی وہ رویہ ہے جس نے تاریخ میں مہلک نتائج پیدا کئے۔

بہار اسمبلی انتخابات میں مجلس اتحاد المسلمین کی کامیابی نے اس بحث کو ایک بار پھر تازہ کر دیا ہے۔ سیمانچل جیسے مسلم اکثریتی خطے سے مجلس نے پانچ نشستیں حاصل کیں۔ بظاہر اسے ایک سیاسی پیش رفت کہا جا سکتا ہے لیکن اس کامیابی کا پس منظر اور اس کے اثرات محض انتخابی اعداد و شمار تک محدود نہیں ہیں۔ سابقہ الیکشن میں بھی مجلس کو اسی خطے سے یہی تعداد ملی تھی مگر اس بار صورتحال اس لحاظ سے مختلف تھی کہ دیگر سیکولر جماعتیں — جیسے راشٹریہ جنتا دل، کانگریس، بایاں محاذ اور جن سوراج پارٹی — اپنے قدم جما نہ سکیں۔ اس خلا کو پُر کر کے مجلس نے نہ صرف نشستیں جیتیں بلکہ اپنے حامیوں کے حوصلوں میں بھی نمایاں اضافہ کیا۔

Published: undefined

یہاں تک کہ مجلس کی قیادت نے بہار میں حکومت سازی کے دعوے کئے، وزیر اعلیٰ اپنا ہونے کا اعلان کیا اور نتیش کمار کی جنتا دل یونائیٹڈ سمیت دیگر جماعتوں کو وزارتیں دینے کے منصوبے پیش کئے۔ بظاہر یہ ایک مضحکہ خیز دعویٰ تھا مگر اس کے باوجود یہ رویہ اس بات کی علامت ہے کہ مذہبی شناخت پر مبنی سیاست کس طرح جذبات اور جوش کو عقل و حقیقت پر غالب کر دیتی ہے۔ مزید تشویش اس وقت پیدا ہوئی جب مجلس نے مغربی بنگال اور اتر پردیش میں بھی تمام مسلم اکثریتی نشستوں پر امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان نے سیکولر جماعتوں میں بے چینی پیدا کر دی، کیوں کہ مسلم ووٹوں کا تقسیم ہونا براہِ راست بی جے پی کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔

یہاں ایک بنیادی سوال ابھرتا ہے—کیا سیاسی جماعتوں کا مذہبی نمائندگی کے دعوے کے ساتھ سامنے آنا جمہوری اصولوں کے مطابق ہے؟ بظاہر ہر جماعت کو الیکشن لڑنے کا حق حاصل ہے، مگر جب سیاست کی بنیاد مذہب پر رکھی جائے تو یہ خطرناک رخ اختیار کر لیتی ہے۔ ہندو پارٹی، مسلم پارٹی، سکھ پارٹی—یہ سب تصورات ملک کے سماجی، تہذیبی اور تاریخی رشتوں کو کمزور کرتے ہیں۔ یہی وہ تقسیم ہے جو آزادی کی تحریک کے دوران بھی ابھری تھی، مگر اس وقت مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، سردار پٹیل، مولانا آزاد—حتیٰ کہ ابتدا میں محمد علی جناح بھی—اس سوچ کے مخالف تھے۔ بعد کے حالات، انگریزوں کی حکمت عملی اور مسلم لیگ کی جانب سے مذہبی بنیادوں پر سیاست نے وہ رخ اختیار کیا کہ ملک تقسیم ہوا، لاکھوں لوگ مارے گئے، اور ہندوستانی مسلمان ہی سب سے بڑی قیمت ادا کرنے پر مجبور ہوا۔

Published: undefined

مسلمان قیادت کے وہ اکابر—مولانا آزاد، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا انور شاہ کشمیری، خان عبدالغفار خان، یہاں تک کہ مولانا مودودی—تقسیم کے مخالف تھے مگر اس مخالفت کے باوجود تقسیم ہوئی اور اس کے نتیجے میں ہندوستانی مسلمان نہ صرف کمزور سیاسی قوت بنے بلکہ آج تک اس تقسیم کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ آزادی کے بعد بھی اگرچہ فرقہ وارانہ تعصب موجود رہا مگر ریاست کا رویہ دشمنی پر مبنی نہیں تھا۔ مسلمانوں نے آئین، جمہوریت اور بقائے باہم کے اصولوں پر اعتماد کیا اور اسی کے سہارے زندگی کا سفر جاری رکھا مگر آج صورتحال مختلف ہے—یہ خطرہ حقیقی ہے اور پہلے سے زیادہ شدید ہے۔

آزادی سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان بنیادی اختلاف یہی تھا کہ مسلم لیگ خود کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کرانا چاہتی تھی۔ کانگریس کا مؤقف تھا کہ کوئی بھی سیاسی جماعت کسی مذہبی طبقے کی واحد ترجمان نہیں ہو سکتی۔ یہی وہ اصول تھا جو ہندوستانی قومیت کی بنیاد تھا۔ دوسری جانب آر ایس ایس، ہندو مہاسبھا اور مسلم لیگ دو قومی نظریہ کو مضبوط کر رہی تھیں۔ مسلم لیگ کے حامی مسلمانوں کو ہی مسلمان تسلیم کرتی تھی، جیسے آج بعض مجلسی کارکن اپنے مخالف مسلم رہنماؤں کو منافق یا غدار کے طعنے دیتے ہیں۔ بہار کے انتخابی ماحول میں جس طرح اقرا حسن اور عمران پرتاپ گڑھی کے خلاف زبان استعمال کی گئی، وہ سنگھی رویے سے مختلف نہ تھی۔

Published: undefined

یہی سوال پھر سامنے آتا ہے—اگر ہندو صرف ہندو کی بات کرے اور مسلمان صرف مسلمان کی، تو ہندوستان کی بات کون کرے گا؟ یہی تقسیم آر ایس ایس کی خواہش ہے۔ بیس فیصد مسلمان ووٹ اگر متحد بھی ہو جائیں تو اسی فیصد اکثریت کے سامنے ان کا وزن سیاسی طور پر کم ہی رہے گا۔ نوے کی دہائی میں ایودھیا تحریک کے ذریعے اسی فارمولے کو سیاست میں داخل کیا گیا اور اب یہ زہریلا درخت تناور ہو چکا ہے۔ مجلس کی مضبوطی آر ایس ایس کے راستے کو ہموار کرتی ہے، کیونکہ وہی تقسیم اور پولرائزیشن آر ایس ایس کا سیاسی ایندھن ہے۔ آج حالت یہ ہے کہ امیدوار کھلے عام کہتے ہیں کہ انہیں مسلم ووٹوں کی ضرورت نہیں۔

جناح اور ساورکر دونوں انگریزوں کے آلہ کار تھے۔ ایک طرف مسلم لیگ مذہبی نعروں کے ذریعے فضا کو مسموم کر رہی تھی اور دوسری طرف آر ایس ایس کے بانی جرمنی سے نسلی نفرت کا سبق سیکھ کر آئے تھے۔ دونوں نے ملک کو تقسیم کے دہانے تک پہنچایا، مگر آج آر ایس ایس کانگریس اور مسلمانوں پر الزام ڈالتی ہے، جبکہ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ اس نے کبھی تقسیم روکنے کی کوشش کی ہو۔

تقسیم کے بعد ہندوستان میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں نے اٹھایا۔ آج اگر اقلیتی سیاست اسی راہ پر چلتی رہی تو یہ خود کشی کے مترادف ہوگا۔ اکثریتی فرقہ پرستی فسطائیت ہے اور اقلیتی فرقہ پرستی اس کی طاقت۔ دونوں کا انجام ملک کے لئے زہر ہلاہل ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined