راجیو گاندھی نہ صرف ہندوستان کی سیاست کا ایک نمایاں چہرہ تھے، بلکہ وہ ایک ایسے رہنما بھی تھے جنہوں نے اپنے مختصر سیاسی سفر میں انسانی ہمدردی، ترقی اور جدیدیت کو ہم آہنگ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ وہ اُن چند رہنماؤں میں سے تھے جن کے وژن نے ہندوستان کو ایک نئے دور کی دہلیز پر لا کھڑا کیا۔
ان کی قیادت میں ہندوستان نے محض ترقی کی رفتار تیز نہیں کی بلکہ عالمی سطح پر اپنی ایک مضبوط اور ہمدرد شبیہ بھی قائم کی۔ وہ ہمیشہ انسانی مسائل کو سیاسی مفادات پر فوقیت دیتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ جب کہیں بھی انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہوتا، وہ بنا کسی پروٹوکول کے متاثرین کے درمیان پہنچ جاتے۔
Published: undefined
راجیو گاندھی کا یقین تھا کہ ہندوستان کی حقیقی ترقی تبھی ممکن ہے جب اس کا دیہی اور محروم طبقہ خوشحال ہو۔ انہوں نے ملک کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں کے دورے کیے، دلتوں، خواتین، بزرگوں اور بچوں کے مسائل کو قریب سے جانا اور انہیں قومی ترقی کے دھارے میں شامل کرنے کی عملی کوشش کی۔ ان کا خواب ایک ایسا ہندوستان تھا جہاں سب کو مساوی مواقع میسر ہوں۔
ان کے حساس دل اور فوری ردعمل کی ایک بڑی مثال بھوپال گیس سانحہ کے وقت سامنے آئی۔ یہ واقعہ دسمبر 1984 میں پیش آیا، جب زہریلی گیس نے ہزاروں جانیں نگل لیں اور لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ انتخابی مہم کے عروج پر ہونے کے باوجود راجیو گاندھی نے فوری طور پر اپنی انتخابی مصروفیات ترک کیں اور براہِ راست بھوپال پہنچے۔ انہوں نے اسپتالوں میں متاثرین کی عیادت کی، ان کے علاج و معالجے کی تفصیلات لیں اور ریاستی حکومت کو فوری امداد فراہم کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ بعد ازاں، انہوں نے وزیرِ اعظم دفتر میں ایک خصوصی سیل بھی تشکیل دیا تاکہ بھوپال کے گیس متاثرین کو باقاعدہ امداد، علاج اور معاوضہ فراہم کیا جا سکے۔
Published: undefined
راجیو گاندھی کا وژن محض قومی سرحدوں تک محدود نہیں تھا۔ جب سری لنکا میں تمل اور سنہالی اقوام کے درمیان نسلی کشیدگی شدت اختیار کر گئی اور ہزاروں تمل باشندے ہندوستان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے، تو راجیو گاندھی نے انسانی بنیادوں پر اقدام اٹھایا۔ سری لنکا کے صدر کے کہنے پر انہوں نے ہندوستانی امن فوج (آئی پی کے ایف) سری لنکا بھیجی تاکہ خونریزی روکی جا سکے اور متاثرین کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
عالمی سطح پر بھی انہوں نے ترقی پذیر اور مظلوم اقوام کی آواز بننے کی کوشش کی۔ ہرارے میں نان الائنڈ موومنٹ کی سربراہی کانفرنس کے دوران راجیو گاندھی نے افریقہ میں نسلی امتیاز کا شکار اقوام کی ترقی کے لیے ایک خصوصی امدادی فنڈ قائم کرنے کی تجویز دی، جسے ’افریقہ فنڈ‘ کا نام دیا گیا۔ اس تجویز کے تحت آئندہ برسوں میں ترقی یافتہ ممالک سے 25 ارب ڈالر کی شراکت کی اپیل کی گئی، جس نے عالمی برادری کو اس سمت میں سوچنے پر مجبور کیا۔
Published: undefined
راجیو گاندھی نے ماحولیات اور ماحولیاتی تحفظ کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل رکھا۔ وہ اوزون تہہ کے نقصان، آلودگی اور جنگلات کی کٹائی جیسے امور پر فکر مند رہتے تھے۔ اقوامِ متحدہ میں اپنے ایک تاریخی خطاب کے دوران راجیو گاندھی نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے ایک بین الاقوامی فنڈ یعنی ’ارتھ پروٹیکشن فنڈ‘ کی تجویز پیش کی، جس کا مقصد دنیا بھر میں ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے مشترکہ مالی وسائل کا قیام تھا۔ اگرچہ یہ فنڈ عملی طور پر اقوامِ متحدہ کے تحت قائم نہ ہو سکا لیکن اس تجویز نے عالمی مکالمے کو ماحولیات کی سمت موڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔
ان کا ایک اور انقلابی کارنامہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو عوامی فلاح کے لیے بروئے کار لانا تھا۔ ان کے دور میں ہندوستان میں کمپیوٹر، ٹیلی کمیونی کیشن، بایوٹیکنالوجی، نیوکلیئر انرجی، اور سائنسی تحقیق جیسے میدانوں میں بڑے پیمانے پر اقدامات کیے گئے۔ آج جس ’ڈیجیٹل انڈیا‘ کی بات کی جاتی ہے، اس کی بنیاد راجیو گاندھی نے ہی رکھی تھی۔ ان کے ٹیکنالوجی مشن نے دیہی علاقوں تک صاف پانی، خوراک، صحت اور تعلیم پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
Published: undefined
راجیو گاندھی سچے جمہوریت پسند تھے۔ وہ تنقید اور تخلیقی مخالفت کو جمہوریت کی روح سمجھتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ نوجوانوں، خواتین اور اقلیتوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی۔ بحیثیت وزیراعظم، کانگریس صدر، رکنِ پارلیمان اور اپوزیشن لیڈر، ان کی پہچان ایک صاف، مخلص اور ہمہ وقت متحرک شخصیت کے طور پر رہی۔
بدقسمتی سے، وہ اپنے خوابوں کا ہندوستان مکمل طور پر تعمیر کرنے سے قبل ہی 21 مئی 1991 کو شہید ہو گئے۔ تاہم، ان کی کوششیں، نظریات اور خدمات ہندوستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے گئے ایک روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ وہ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے ہندوستانی سیاست میں نرمی، وقار اور دوراندیشی کا ایک نیا انداز متعارف کرایا۔ ان کی زندگی اور قربانی آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ ایک مستقل تحریک کا باعث بنی رہے گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined