فکر و خیالات

او بی سی، قبائل اور ہمنتا کے سامنے سر اٹھاتا نیا چیلنج!

آسام میں چھ او بی سی کمیونٹیز کی قبائلی درجہ بندی کی مانگ پھر زور پکڑ رہی ہے۔ حکومت کے ممکنہ اقدام سے ووٹ مل سکتے ہیں مگر نسلی کشیدگی اور سیاسی عدم استحکام بڑھنے کا اندیشہ بھی ہے

<div class="paragraphs"><p>آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما /&nbsp; تصویر: آئی اے این ایس</p></div>

آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما /  تصویر: آئی اے این ایس

 

آسام کی سیاست ایک بار پھر نازک موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے گلوکار زوبین گرگ کی موت کے تنازعے پر عوامی غصے کو کافی حد تک کم کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے مگر ان کے سامنے اب ایک ایسا مسئلہ ابھر رہا ہے جو محض سیاسی نہیں بلکہ ریاست کے سماجی تانے بانے کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

زوبین گرگ کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ابھی سامنے نہیں آئی لیکن اشارے یہی ہیں کہ اس میں کوئی حیران کن انکشاف نہیں ہوگا۔ 6 اکتوبر کو سرما نے پریس کانفرنس میں شہریوں سے اپیل کی کہ وہ عدالتوں سے رپورٹ کی کاپی حاصل کریں۔ اس دوران انھوں نے کانگریس رہنما گورو گوگوئی پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اس مسئلے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

Published: undefined

یاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس موقع پر سرما نے ایک تیر سے دو شکار کیے، ایک طرف انہوں نے عوام میں اعتماد بحال کیا اور دوسری جانب مخالفین کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا۔ ان کے قریبی حلقوں میں یقین ہے کہ 2026 کے اسمبلی انتخابات پر اس معاملے کا کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔

لیکن آسام کی سیاست میں خطرہ ہمیشہ وہاں سے پیدا ہوتا ہے جہاں وہ نظر نہیں آتا۔ اس بار خطرہ ایک پرانے وعدے کی صورت میں لوٹا ہے، او بی سی کمیونٹیز کو قبائلی درجہ دینے کا وعدہ، جو اب سرما حکومت کے سامنے ایک نئے سیاسی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

ریاست کی چھ بڑی او بی سی کمیونٹیز مورن، کوچ راجبونگشی، تائی اہوم، مٹک، چٹیا اور قبائلی چائے مزدور ستمبر 2025 سے ہی سڑکوں پر ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ انھیں درج فہرست قبائل یعنی ایس ٹی (شیڈیولڈ ٹرائب) کا درجہ دیا جائے۔ یہ مطالبہ تقریباً ایک دہائی پرانا ہے۔ 2014 کے عام انتخابات سے قبل بی جے پی اور خود وزیراعظم نریندر مودی نے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آتے ہی یہ درجہ دیا جائے گا لیکن 11 برس گزرنے کے بعد بھی معاملہ محض کمیٹیوں اور رپورٹوں تک محدود ہے۔

Published: undefined

ان طبقات کا اثر آسام کے تقریباً ہر ضلع میں موجود ہے۔ وہ نہ صرف آبادی کے لحاظ سے اہم ہیں بلکہ سماجی اور ثقافتی شناخت کے لیے بھی طاقتور آواز رکھتے ہیں۔ ان کی خواہش محض قبائلی درجہ حاصل کرنے تک محدود نہیں بلکہ وہ آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل ہونے کی بھی مانگ کر رہے ہیں، تاکہ اپنی زمین، وسائل اور ثقافت پر مکمل حق حاصل کر سکیں۔ اس وقت آسام میں تین علاقے بوڈولینڈ، دیما ہساؤ اور کاربی انگلونگ اسی شیڈول کے تحت خود مختاری حاصل کیے ہوئے ہیں۔

ستمبر کے مہینے میں ان مظاہروں نے شدت اختیار کر لی۔ مورن اسٹوڈنٹس یونین کے زیر قیادت تقریباً 20 ہزار مظاہرین نے تنسکیا میں مشعل ریلی نکالی۔ کوچ راجبونگشی طبقے نے پولیس سے جھڑپ کے بعد 12 گھنٹے کا بند رکھا۔ مٹک کمیونٹی نے ڈبروگڑھ اور تنسکیا میں ہزاروں افراد کے اجتماع کیے جبکہ سادیا میں تائی اہوم سماج کے 10 ہزار سے زائد لوگ جمع ہوئے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان تمام مظاہروں کی قیادت طلبہ تنظیمیں کر رہی ہیں جو آسام کی سیاسی تحریکوں کی پرانی روایت رہی ہے۔

Published: undefined

حکومت نے مظاہرین کو مطمئن کرنے کے لیے ایک وزارتی گروپ تشکیل دیا ہے جو 25 نومبر کو اپنی رپورٹ اسمبلی میں پیش کرے گا اور بعد ازاں مرکز کو بھیجے گا۔ آل مورن اسٹوڈنٹس یونین کے صدر پالندرا بورا کے مطابق، وزیر اعلیٰ نے انھیں یقین دہانی کرائی کہ اگر مرکز نے جواب نہ دیا تو ریاستی حکومت دوبارہ غور کرے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مظاہروں کے دوران پولیس کارروائی یا کسی طرح کی سختی دیکھنے کو نہیں ملی، جس سے سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ بی جے پی خود اس تحریک کو پسِ پردہ پنپنے دے رہی ہے۔ ایک سینئر صحافی نے کہا، ’’ایسا لگتا ہے کہ حکومت پہلے بحران پیدا ہونے دیتی ہے اور پھر انتخابات سے پہلے اسے سلجھا کر فائدہ اٹھاتی ہے۔‘‘

سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ ان بڑے مظاہروں کی فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے؟ ہر ریلی پر 8 سے 10 لاکھ روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ اگر مقامی کاروباری طبقہ فنڈنگ نہیں کر رہا تو رقم کا ذریعہ کوئی سیاسی جماعت بھی ہو سکتی ہے۔

Published: undefined

دوسری طرف، موجودہ قبائلی کمیونٹیز ان مطالبات سے خوف زدہ ہیں۔ انھیں خدشہ ہے کہ اگر نئے طبقات کو شامل کیا گیا تو ان کے کوٹے میں کمی ہو جائے گی۔ بوڈو رہنما پرمود بورو نے حال ہی میں کہا کہ ’کوچ راجبونگشی کو ایس ٹی درجہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے پاس پہلے ہی او بی سی کا درجہ ہے۔‘ ان کے اس بیان کے بعد گواہاٹی میں زبردست احتجاج ہوا۔

اس پوری صورتحال کا اثر محض سیاست پر نہیں بلکہ ریاست کے نسلی توازن پر بھی پڑ سکتا ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق آسام کی تخمینہ آبادی 3.7 کروڑ ہے، جس میں 12.4 فیصد قبائلی ہیں۔ اگر ان چھ او بی سی طبقات کو شامل کیا گیا تو یہ تناسب تقریباً 40 فیصد ہو جائے گا۔ اس صورت میں آسام کو ’آدیواسی ریاست‘ قرار دینا ممکن ہو جائے گا، جس کے بعد زمین کے حقوق، نمائندگی اور ثقافتی تحفظ کے قوانین میں بڑی تبدیلیاں ناگزیر ہو جائیں گی۔

Published: undefined

یہ منظرنامہ آسام کی موجودہ ساخت کے لیے خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ غیر قبائلی کمیونٹیز خود کو محروم محسوس کریں گی۔ نسلی دراڑیں، جو برسوں سے سطح کے نیچے دبی ہوئی ہیں، ایک بار پھر بھڑک سکتی ہیں۔

ہمنتا بسوا سرما، جو اپنی جارحانہ مگر عملی سیاست کے لیے جانے جاتے ہیں، اب ایسے مرحلے پر کھڑے ہیں جہاں ہر فیصلہ دو دھاری تلوار بن سکتا ہے۔ اگر وہ ان طبقات کی مانگ پوری کرتے ہیں تو دیگر قبائل ناراض ہو سکتے ہیں اور اگر نہیں کرتے تو چھ کمیونٹیز کی حمایت کھو سکتے ہیں۔

Published: undefined

یہی وہ سیاسی مخمصہ ہے جو آسام کے مستقبل کا تعین کرے گا۔ بظاہر حکومت نے صورتحال پر قابو پایا ہوا ہے مگر زمینی سطح پر اشتعال بڑھ رہا ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ سرما اپنی سیاسی مہارت سے اسے موقع میں بدل پاتے ہیں یا یہ چال الٹی پڑ جاتی ہے۔

زوبین گرگ، جن کی آواز آسام کی مشترکہ شناخت کی علامت تھی، اب پس منظر میں جا چکے ہیں لیکن ان کی یاد اس سوال کو زندہ رکھتی ہے کہ کیا آسام دوبارہ ایک متحد ریاست بن پائے گا — یا پھر ذات، قبیلے اور درجہ بندی کے نئے جال میں الجھ جائے گا؟

(مضمون نگار سوربھ سین کولکاتا کے آزاد مصنف اور تبصرہ نگار ہیں)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined