ایک بڑا مارکیٹ ہونے کے باوجود ہندوستان جیسا بڑا ملک تب تک ترقی یافتہ نہیں بن سکتا جب تک وہ شاندار انفراسٹرکچر نہیں بنا لیتا۔ یہ کر پانا یقیناً ہی بڑا چینج ہے۔ ہندوستان اسے 1947 میں آزاد ہونے سے لے کر 1991 میں معاشی لبرلائزیشن کا کھلاپن اپنانے اور اس کے بعد بھی اب تک کے تین سالوں میں برداشت کرتا رہا ہے۔ وجہ، معیشت کا بنیادی ڈھانچہ بنانے میں طویل مدت تک موٹی پونجی لگانی پڑتی ہے۔ چونکہ اس میں ریٹرن آنے میں وقت لگتا ہے، اس لیے جلدی منافع کمانے کی فطرت والا نجی سیکٹر اس میں سرمایہ کاری کے لیے آگے نہیں آتا۔ بینک بھی بنیادی ڈھانچہ بنانے کے لیے قرض دینے سے پرہیز کرتے ہیں کیونکہ کم وقت کے ڈپازٹ کو وہ زیادہ وقت کے قرض میں پھنسانے کا جوکھم نہیں اٹھا سکتے۔ اس لیے انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کا زیادہ کام حکومت کو ہی کرنا پڑا ہے۔
Published: undefined
لیکن موجودہ حکومت نے انفراسٹرکچر بنانے اور اس کی فنانسنگ کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے غضب کا طریقہ نکالا ہے۔ اوپر سے اس نے اگلے چار سال میں اپنے خزانے میں چھ لاکھ کروڑ روپے جوڑنے کا بھی انتظام کر لیا ہے۔ وزارت مالیات نے نیتی آیوگ کے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ اس ’حیرت انگیز، لیکن سچ‘ منصوبہ کا اعلان کیا ہے۔ اس نے اسے نیشنل مونیٹائزیشن پائپ لائن (این ایم پی) کا نام دیا ہے۔ دھیان دیں کہ یہ قومی سطح پر گیس، تیل یا پانی لے جانے کے لیے بچھائی جانے والی کوئی پائپ لائن نہیں بلکہ ملک میں پہلے سے موجود انفراسٹرکچر کے استعمال سے حکومت کے لیے دولت اور نجی سیکٹر کے لیے اتنا عظیم منافع کمانے کا انتظام کرنے والی پائپ لائن ہے جسے وہ بے جھجک نیا انفراسٹرکچر بنانے میں لگا سکتا ہے۔
Published: undefined
وزیر مالیات نرملا سیتارمن کو یقین ہے کہ حکومت کو چھ لاکھ کروڑ روپے دینے کے باوجود نجی سیکٹر اس نایاب پائپ لائن سے کمایا گیا منافع ملک میں انفراسٹرکچر کی تعمیر میں لگائے گا ہی لگائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اس میں زمین کا کوئی پچڑا نہیں۔ یہ براؤن فیلڈ پروجیکٹ ہے جن میں سرمایہ کاری کی جا چکی ہے، جہاں پوری ملکیت بنائی جا چکی ہے، جو یا تو بے کار پڑی ہے یا اس کا پورا مونیٹائزیشن نہیں ہوا یا کم استعمال ہو رہا ہے۔ اس لیے اس میں نجی شراکت داری لا کر آپ اس کا بہتر مونیٹائزیشن اور انفراسٹرکچر تعمیر میں مستقبل کی سرمایہ کاری یقینی کرنے میں اہل ہو جائیں گے۔‘‘
Published: undefined
حکومت نے اپنے اعلان اور پریزنٹیشن میں جس طرح مونیٹائزیشن سے لے کر براؤن فیلڈ، اکزیکیوشن رسک، او ایم ٹی (آپریٹ مینٹین ٹرانسفر)، او ایم ڈی (آپریشنز، مینٹیننس اینڈ ڈیولپمنٹ) اور ٹی او ٹی (ٹول آپریٹ ٹرانسفر) جیسے الفاظ اچھالے ہیں، اس سے واضح ہے کہ وہ کسی انتخابی فائدہ کے لیے عوام سے نہیں بلکہ دولت کے فائدہ کے لیے ملکی-بیرون ملکی کارپوریٹ سیکٹر اور مالی اداروں سے بات کرنا چاہتی ہے۔ وہ بنیادی نظام کے 13 سیکٹرس میں نجی کارپوریٹ سیکٹر کی شراکت داری لانے میں مصروف ہے۔ یہ ’پائپ لائن‘ مالی سال 22-2021 سے لے کر 25-2024 تک، یعنی موجودہ حکومت کی مدت کار ختم ہونے کے ایک سال بعد تک کی محدود مدت کے لیے ہے۔ ان قومی ملکیتوں پر مالکانہ حق حکومت کا ہی رہے گا۔ حکومت بیچ کی چار سال کی مدت میں ان ملکیتوں سے آمدنی اور منافع حاصل کرنے کا اختیار نجی سیکٹر کو دے دے گی۔
Published: undefined
نجی سیکٹر کو سونپنے کے لیے مقررہ سیکٹرس میں سڑک، ریلوے، بجلی، ائیرپورٹ، شپنگ، گیس پائپ لائن، ٹیلی کام، کوئلہ کان، اناج ذخیرہ اندوزی، سرکاری ہوٹل اور زمین شامل ہیں۔ حکومت کو سب سے زیادہ 66 فیصد دولت (3.98 لاکھ کروڑ روپے) سڑک، بجلی اور ریلوے سے ملنی ہے۔ کام شروع ہو چکا ہے اور رواں مالی سال 22-2021 میں حکومت کو اس سے تقریباً 88 ہزار کروڑ روپے ملنے کی امید ہے۔ لیکن دو سوالات سب سے اہم ہیں۔ ایک، جن سرکاری کمپنیوں کی ملکیتیں نجی سیکٹر کو دی جائیں گی، ان سے خود انھیں کیا ملے گا؟ دو، کیا ہماری معیشت کی موجودہ حالت ایسی ہے جس میں نجی سیکٹر منافع کما کر اسے انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ میں لگا پائے گا؟
Published: undefined
ضمناً بتا دیں کہ مارچ 2020 میں ملک پر کورونا کا قہر ٹوٹنے سے تقریباً تین مہینے قبل دسمبر 2019 میں مرکزی حکومت نے نیشنل انفراسٹرکچر پائپ لائن (این آئی پی) کا اعلان کیا تھا جس میں مالی سال 19-2018 سے 25-2024 تک 111 لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری ہونی ہے۔ اس کا 39 فیصد (43.29 لاکھ کروڑ روپے) مرکزی حکومت کو دینا ہے۔ نیشنل مونیٹائزیشن پائپ لائن (این ایم پی) سے 6 لاکھ کروڑ روپے مل بھی گئے تو یہ رقم اس کی کل ذمہ داری کا 13.86 فیصد ہی بنتا ہے۔ باقی رقم مرکزی حکومت کہاں سے لائے گی؟ این آئی پی میں 40 فیصد رقم ریاستی حکومتوں کو لگانی ہے، باقی 21 فیصد (23.31 لاکھ کروڑ روپے) نجی سیکٹر کے اکاؤنٹ میں ڈالے گئے ہیں۔ ویسے تو دونوں پائپ لائن ساتھ ساتھ چلنی ہیں۔ لیکن سوال ہے کہ کیا حکومت نے نجی سیکٹر کو اتنی رقم جمع کرنے میں مدد کے لیے مونیٹائزیشن کی نئی اسکیم نکالی ہے یا معاشی اصلاحات کے عزائم دکھانے کے لیے نیا شگوفہ اچھال دیا ہے؟
Published: undefined
دقت یہ ہے کہ جملہ پھینکنا یا شگوفہ اچھالنا بے حد آسان کام ہے۔ لیکن ملکی مفاد میں زمینی سطح پر کام کرنے کے لیے بہت ساری الجھنوں کو سلجھانا پڑتا ہے۔ جن سرکاری ملکیتوں سے نوٹ بنانے کا سامان کرنا ہے، ان کی وزارتوں سے لے کر ریاستی حکومتوں اور کپنیوں یا اداروں اور ان کے ملازمین کی مخالفت سے بھی حکومت کو نبرد آزما ہونا ہوگا۔ پھر بازار کا بھی اپنا مزاج نرم گرم ہوتا ہے۔ مثلاً گزشتہ مالی سال 21-2020 کے بجٹ میں سرکاری کمپنیوں کے ڈس انوسٹمنٹ سے 2.10 لاکھ کروڑ روپے جمع کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا۔ لیکن حقیقت میں 32800 کروڑ روپے ہی ملے۔ محض 15.62 فیصد ہدف حاصل ہوا۔ ایسی نااہلی مرکز کی اِس یا اُس کسی بھی پائپ لائن کے تئیں قطعی پراعتماد نہیں کرتی۔
(یہ مضمون انل سنگھ کا تحریر کردہ ہے جو کہ ہندی میں www.navjivanindia.com پر شائع ہوا)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز
تصویر: محمد تسلیم