
علامتی تصویر / اے آئی
ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں بے شمار شخصیتیں ایسی ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں قومی مفاد اور مشترکہ ہم آہنگی کے لیے وقف کر دیں۔ مگر ان میں مولانا ابوالکلام آزاد کا کردار سب سے منفرد اور بصیرت افروز رہا۔ وہ نہ صرف ایک انقلابی مفکر اور نڈر رہنما تھے بلکہ وہ ہندوستانی قومیت کے ایسے علمبردار تھے جنہوں نے مذہب کے بجائے انسانیت، رواداری اور اتحاد کو آزادی کا حقیقی زینہ سمجھا۔
مولانا آزاد 11 نومبر 1888 کو مکہ مکرمہ میں ایک ہندوستانی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولانا خیرالدین سنہ 1898 میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کلکتہ واپس لوٹے۔ آزاد نے کم عمری سے ہی علم و مطالعے سے رشتہ جوڑ لیا اور صرف 12 سال کی عمر میں بچوں کے رسائل کے لیے لکھنا شروع کیا۔ تعلیم و تحقیق کے ساتھ ساتھ وہ جلد ہی اس نتیجے پر پہنچے کہ قلم کی طاقت غلامی کے نظام کو چیلنج کر سکتی ہے۔ اسی جذبے کے تحت انہوں نے 1912 میں رسالہ ’الہلال‘ جاری کیا، جو نہ صرف آزادی کے پیغام کا ترجمان بنا بلکہ قومی بیداری کی ایک علامت بھی ثابت ہوا۔
Published: undefined
برطانوی حکومت نے الہلال کے انقلابی مضامین سے خوف زدہ ہو کر اسے بند کر دیا اور مولانا آزاد کو بنگال سے نکال کر رانچی میں نظر بند کر دیا لیکن قید و بند نے ان کے عزم کو کمزور نہیں کیا۔ بلکہ وہ اور زیادہ پختگی کے ساتھ قومی اتحاد کے نظریے کے ترجمان بن گئے۔
مولانا آزاد نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ آزادی کا حقیقی مفہوم قومی اتحاد کے بغیر ممکن نہیں۔ 1921 میں آگرہ میں دیے گئے اپنے خطاب میں انھوں نے واضح طور پر کہا، ’’میرا پہلا مقصد ہندو مسلم اتحاد ہے۔ میں مسلمانوں سے کہوں گا کہ ان کا فرض ہے کہ وہ ہندوؤں کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم کریں تاکہ ہم ایک کامیاب قوم کی تعمیر کر سکیں۔‘‘
ان کے نزدیک قوم کی طاقت مذہب سے نہیں بلکہ باہمی اعتماد، رواداری اور مشترکہ شناخت سے بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی سیاسی جدوجہد میں مذہبی امتیاز کے ہر تصور کو رد کیا۔
Published: undefined
آزاد نے 1923 میں کانگریس کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایک تاریخی جملہ کہا جو آج بھی قومی یکجہتی کے باب میں سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے، ’’اگر کوئی دیوی آسمان سے اتر کر یہ کہے کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے بدلے ہمیں 24 گھنٹے میں آزادی دلائے گی تو میں اسے مسترد کر دوں گا۔‘‘
یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ آزاد کے نزدیک آزادی کا مطلب صرف سیاسی خودمختاری نہیں تھا، بلکہ ایک متحد اور ہم آہنگ ہندوستان کی تعمیر تھی۔
جب 1940 کی دہائی میں مسلم لیگ نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور پاکستان کے قیام کا مطالبہ کیا، تو مولانا آزاد نے نہایت واضح انداز میں اس نظریے کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ مشترکہ تاریخ، ثقافت اور جغرافیے پر بنتی ہے۔
Published: undefined
15 اپریل 1946 کو بطور صدرِ کانگریس انھوں نے کہا، ’’میں نے پاکستان کے مطالبے کو ہر زاویے سے پرکھا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ نہ صرف ہندوستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا بلکہ خود مسلمانوں کے لیے بھی تباہ کن ہوگا۔‘‘ انھوں نے خبردار کیا کہ مذہبی بنیادوں پر قائم ہونے والا ملک دیرپا نہیں رہ سکتا۔ ان کے مطابق یہ ملک نفرت، فوجی طاقت اور بیرونی اثرات کے سہارے کھڑا ہوگا اور بالآخر اندرونی تقسیم کا شکار بن جائے گا۔
یہ وہ پیش گوئی تھی جو 1971 میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے ساتھ سچ ثابت ہوئی۔ آزاد نے کہا تھا کہ، ’’نفرت کی بنیاد پر بننے والا ملک اسی وقت تک زندہ رہے گا جب تک نفرت زندہ رہے گی۔ جب یہ آگ ٹھنڈی ہوگی تو وہ ملک ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔‘‘ ان کی یہ بات محض سیاسی بصیرت نہیں بلکہ گہری تاریخی آگاہی کی مظہر تھی۔
Published: undefined
مولانا آزاد نے ہندوستان کے مسلمانوں کو پاکستان ہجرت نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کے مطابق پاکستان جانے سے مسلمان مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوں گے، کیونکہ وہاں ان کی شناخت علاقائی اور لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو جائے گی۔ انھوں نے خبردار کیا کہ پاکستان میں رہنے والے لوگ آنے والے وقت میں اپنی صوبائی شناخت کے لیے آواز اٹھائیں گے اور ہندوستان سے جانے والوں کو ’بن بلایا مہمان‘ سمجھا جائے گا۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ، ’’اگرچہ مذہب کی بنیاد پر ہندو آپ سے مختلف ہیں لیکن وہ قوم اور حب الوطنی کی بنیاد پر مختلف نہیں۔ پاکستان میں آپ کو ایک اجنبی قوم کے شہری کے طور پر دیکھا جائے گا۔‘‘ یہ الفاظ نہ صرف ان کی قومی بصیرت کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان کی اس دوراندیشی کو بھی ثابت کرتے ہیں جس نے مستقبل کے سیاسی حالات کو برسوں پہلے بھانپ لیا تھا۔
Published: undefined
مولانا آزاد کے نزدیک ہندوستان ایک ایسی سرزمین تھی جہاں مختلف مذاہب، زبانوں اور ثقافتوں کے لوگ ایک ساتھ رہ کر ایک مضبوط قوم تشکیل دے سکتے ہیں۔ انھوں نے اپنی ساری زندگی اس نظریے کے فروغ میں لگا دی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہندوستان مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوا تو صرف جغرافیہ نہیں بٹے گا بلکہ انسانوں کے دلوں میں بھی دراڑیں پیدا ہوں گی۔
ان کے نظریے میں ایک ایسا ہندوستان شامل تھا جہاں مذہب، ذات پات، فرقہ یا جنس کسی کے حقوق کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ یہی وہ سوچ تھی جس نے انھیں نہ صرف اپنے وقت کا سب سے بڑا قومی مفکر بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی رہنمائی کا سرچشمہ بنایا۔ 22 فروری 1958 کو دہلی میں مولانا ابوالکلام آزاد اس دنیا سے رخصت ہوئے، مگر ان کی فکر آج بھی زندہ ہے۔ وہ رہنما جنہوں نے آزادی سے پہلے اتحاد کو مقدم جانا، آج بھی ہندوستان کی قومی وحدت کی علامت ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined