
ڈاکٹر منموہن سنگھ / Getty Images
’ہزاروں جوابوں سے اچھی ہے میری خاموشی، نہ جانے کتنے سوالوں کی آبرو رکھی۔‘ یہ محض ایک شعر نہیں بلکہ منموہن سنگھ کی پوری سیاسی زندگی کا خلاصہ ہے۔ ہندوستانی سیاست میں آج جہاں بلند آواز، تیز جملے اور جارحانہ بیانیہ طاقت کی علامت سمجھے جا رہے ہیں، وہیں منموہن سنگھ نے خاموشی، تحمل اور ادارہ جاتی وقار کو اپنی شناخت بنایا۔
26 ستمبر 1932 کو متحدہ ہندوستان کے پنجاب میں پیدا ہونے والے منموہن سنگھ کا سیاست میں داخلہ کسی عوامی تحریک یا انتخابی مہم کے نتیجے میں نہیں ہوا۔ وہ ایک ماہرِ معاشیات تھے، جن کی شناخت علمی دیانت، خاموش محنت اور پالیسی سازی کے میدان میں گہری بصیرت سے بنی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عملی سیاست میں آئے بغیر پہلے وزیرِ خزانہ اور بعد ازاں وزیرِ اعظم کے منصب تک پہنچے۔
Published: undefined
یہ حقیقت بھی غیر معمولی ہے کہ وہ کبھی لوک سبھا کا انتخاب نہیں جیتے۔ راجیہ سبھا کے ذریعے منتخب ہو کر انہوں نے دس برس تک ملک کی قیادت کی۔ جمہوریت کے شور و غل میں یہ بات اکثر نشانۂ تنقید بنی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان کا آئینی ڈھانچہ اس راستے کو مکمل طور پر جائز اور بااختیار تسلیم کرتا ہے۔
بطور وزیرِ اعظم ان کا دور کئی سطحوں پر متضاد رہا۔ ایک طرف ملک نے معاشی استحکام، عالمی سطح پر اعتماد اور اصلاحات کے تسلسل کو دیکھا، تو دوسری طرف اسی دور میں بدعنوانی کے سنگین الزامات نے حکومت کی ساکھ کو متاثر کیا۔ ان الزامات نے نہ صرف حکومت بلکہ خود وزیرِ اعظم کی قیادت کو بھی کڑی آزمائش میں ڈالا۔
Published: undefined
اسی مرحلے پر منموہن سنگھ کی خاموشی سب سے زیادہ زیرِ بحث آئی۔ اپوزیشن نے اسے کمزوری قرار دیا اور ’کمزور وزیرِ اعظم‘ کی اصطلاح کو بار بار دہرایا۔ ایک موقع پر لال کرشن آڈوانی نے یہاں تک کہا کہ وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ کی اہمیت ہی باقی نہیں رہی۔ یہ جملے محض سیاسی تنقید نہیں تھے بلکہ ایک منظم بیانیہ تھے، جس کا مقصد خاموش قیادت کو غیر مؤثر ثابت کرنا تھا۔
مگر یہ تصویر مکمل نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ منموہن سنگھ مکمل طور پر خاموش نہیں تھے۔ ان کے میڈیا مشیر پنکج پچوری کو ایک بار باقاعدہ پریس کانفرنس کر کے یہ بتانا پڑا کہ وزیرِ اعظم اپنے دس سالہ دور میں تقریباً 1198 مرتبہ تقاریر کر چکے ہیں۔ اوسطاً ہر تیسرے دن ایک خطاب، یہ اعداد و شمار اس تصور کی نفی کرتے ہیں کہ وہ عوامی یا ادارہ جاتی گفتگو سے کتراتے تھے۔
Published: undefined
اصل فرق یہ تھا کہ وہ ردِعمل کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کا مزاج اشتعال کے جواب میں اشتعال نہیں بلکہ خاموش تحمل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 27 اگست 2012 کو پارلیمنٹ کے احاطے میں انہوں نے برسوں کی تنقید کا جواب کسی تقریر یا الزام سے نہیں بلکہ اسی ایک شعر کے ذریعے دیا۔ یہ لمحہ ان کی سیاست کا علامتی اظہار تھا۔
منموہن سنگھ کی قیادت کا جوہر شور میں نہیں، ضبط میں تھا۔ وہ ایسے وزیرِ اعظم تھے جنہوں نے اداروں کو خود سے بڑا سمجھا، عہدے کو شخصیت پر ترجیح دی اور سیاسی فائدے کے لیے زبان کو ہتھیار بنانے سے گریز کیا۔ ان کی خاموشی بعض کے نزدیک کمزوری ہو سکتی ہے مگر درحقیقت وہ ایک ایسے نظریے کی نمائندگی تھی جو سیاست کو خدمت، وقار اور ذمہ داری کا میدان سمجھتا ہے۔
Published: undefined
26 دسمبر 2024 کو ان کے انتقال کے ساتھ ہندوستانی سیاست کا ایک ایسا باب بند ہو گیا جس میں کم گوئی بھی قیادت کی ایک مضبوط صورت بن سکتی تھی۔ منموہن سنگھ ہمیں یہ سبق دے گئے کہ ہر دور میں بلند آواز ہی طاقت نہیں ہوتی—کبھی کبھی خاموشی بھی تاریخ پر گہری چھاپ چھوڑ جاتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined