فکر و خیالات

ہند-پاک کھلاڑیوں کا مصافحہ تنازعہ، یعنی کرکٹ کی پچ پر سیاسی اسٹروک... آشیش رے

مصافحہ تنازعہ کے بعد یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ جب پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیل ہی لیا، تو پھر ہاتھ نہ ملانے کا یہ متضاد رویہ کیوں؟

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

 

ایسا مانا جاتا ہے کہ مقابلہ جاتی کھیلوں سے کردار کی تشکیل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ کھیلوں میں ایک خاص طرح کی کشش ہوتی ہے اور اس سے مہذب روایات جڑی ہوتی ہیں۔ کرکٹ بھی ایسا ہی ایک کھیل ہے۔ کہاوت کے مطابق یہ ’شریفوں کا کھیل‘ ہے۔ اس کی بڑی وجہ ہے ابتدا سے اعلیٰ طبقات کے لوگوں کا اس کھیل سے جڑا رہنا، اور اس کھیل کی روح۔

Published: undefined

انگلینڈ میں، جہاں کرکٹ کا ایجاد ہوا، یہ امیر اور پڑھے لکھے طبقات کے کھیل کی شکل میں پروان چڑھا۔ مثال کے طور پر، کرکٹ کے بانی سمجھے جانے والے ڈبلیو جی گریس ایک ڈاکٹر تھے۔ ان کے ساتھی انگلینڈ کی کپتانی کرتے تھے۔ لندن میں قائم ملبورن کرکٹ کلب (ایم سی سی) نے 1788 سے 1989 تک 200 برسوں تک کرکٹ کو اپنے کنٹرول میں رکھا۔ ایم سی سی نے ہی کرکٹ کے قوانین بنائے۔ اسی نے غیر جانب دار کھیل کے اصول اور کھیل کی بنیادی قدریں بھی طے کیں۔ انہی میں ہے ’کرکٹ کی روح‘ جس کا ذکر ایم سی سی کے دستور کی تمہید میں ہے۔ اس میں کھلاڑیوں سے نہ صرف قوانین کی پابندی کرنے بلکہ اعلیٰ کردار اپنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے تاکہ مخالفین، ساتھی کھلاڑیوں، امپائروں اور کھیل کی وراثت کے تئیں احترام بڑھے۔ یہی وہ کردار ہے جس نے عظیم کرکٹ مصنف سر نیول کارڈس کو یہ کہنے کے لیے مجبور کیا کہ یہ ’محض ایک کھیل نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا طریقہ ہے‘۔

Published: undefined

وقت کے ساتھ سیاست یہ طے کرنے لگی کہ کوئی ملک دوسرے ملک کے ساتھ کھیلے یا نہ کھیلے۔ انگلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے سفید فام ممالک نے نسلی امتیاز کے دور میں بھی جنوبی افریقہ کے ساتھ کرکٹ تعلقات قائم رکھے، جبکہ نہرووادی ہندوستان سے متاثر سیاہ فام ملکوں نے ایسا نہیں کیا، جب تک کہ ملک کی ایڈمنسٹریٹو راجدھانی پریٹوریا نے کثیر نسلی مساوات کو سرکاری پالیسی کے طور پر اختیار نہ کر لیا۔ اس مسئلے پر دنیا چاہے منقسم تھی، لیکن ترقی پذیر ملکوں نے ہندوستان کے موقف کی تعریف کی۔ ہندوستان نے اپنے موقف پر قائم رہنے کے لیے 1974 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹینس کے ڈیوس کپ کے فائنل کی قربانی بھی دی۔

Published: undefined

اب بات ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی۔ دونوں ملکوں کے درمیان آخری دو طرفہ ٹیسٹ سیریز 07-2006 میں اور آخری محدود اووروں کی سیریز 13-2012 میں ہوئی تھی۔ 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کے اقتدار میں لوٹنے کے بعد سے پاکستان کے ساتھ کوئی دو طرفہ سیریز نہیں ہوئی۔ البتہ محدود اوورس کے ٹورنامنٹس میں آئی سی سی (بین الاقوامی کرکٹ کونسل) کی مجبوریوں کے باعث پاکستان ضرور آیا تھا۔ اس سال کے آغاز میں ہندوستان نے پاکستان میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے میچ کھیلنے سے انکار کر دیا تھا، جس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے آئندہ آئی سی سی مقابلوں کے لیے ہندوستان نہ آنے کی دھمکی دی۔

Published: undefined

ایشیا کپ آئی سی سی سے منظور شدہ ٹورنامنٹ ہے، جس کا انعقاد ایشیائی کرکٹ کونسل کرتی ہے۔ ابتدائی کلاسیکی نظریات پر جمے لوگ اسے کرکٹ کیلنڈر کے ایک اہم حصے کے بجائے پیسہ کمانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر اس کا انعقاد ہونا ہی ہے، تو اتنی امید تو رکھی جاتی ہے کہ کھیل کے کردار پر دھبہ نہ لگے۔

Published: undefined

9 سے 28 ستمبر کے دوران جاری ایشیا کپ سے عین پہلے کا وقت سیاسی طور پر حساس تھا۔ 22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد مئی میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ گئی تھی۔ پہلگام سے پہلے بھی پاکستان مبینہ طور پر 2016 میں پٹھان کوٹ اور اُڑی میں ہندوستانی فوجی ٹھکانوں میں گھس آیا تھا اور اس پر 2019 میں پلوامہ کے خودکش حملے کی سرپرستی کا بھی الزام لگا تھا، جس میں ہندوستانی نیم فوجی دستہ کے درجنوں جوان مارے گئے تھے۔

Published: undefined

2019 میں اپنے اپنے ہائی کمشنروں کو واپس بلانے کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات کی سطح گر گئی۔ اسی سال براہ راست تجارتی تعلقات بھی معطل کر دیے گئے تھے۔ پہلگام کے بعد ہندوستان نے اعلان کیا کہ وہ تقریباً 65 سال پرانے سندھ آبی معاہدے کو معطل کر رہا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات اس سے پہلے کبھی اتنے خراب نہیں رہے۔

Published: undefined

وزیر اعظم مودی کو یہ کہتے سنا گیا ہے کہ پہلگام کے بعد کیا گیا ہندوستان کا جوابی حملہ ’آپریشن سندور‘ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ سینئر فوجی افسروں کو بھی یہی بات دہراتے سنا گیا ہے۔ تو پھر پاکستان کے خلاف ہندوستان نے کرکٹ میچ کی اجازت کیسے دے دی؟ کیا غیر جانبدار مقام پر انعقاد سے ان قسموں کی توہین نہیں ہوتی جن کے باعث ہندوستان نے پاکستان کے ساتھ کھیلنا بند کیا تھا؟ یا پھر بی جے پی کے زیرِ تسلط بی سی سی آئی کے لیے داؤ پر لگے منافع کا لالچ اتنا بڑا تھا کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا؟

Published: undefined

اس کے علاوہ بھی کچھ دیگر تلخ سوالات ہیں۔ ٹیم کو بھیجنے اور اسے پاکستان کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دینے کا فیصلہ، سندھ آبی معاہدے کے فیصلے کو درست ٹھہراتے ہوئے مودی کے اس سخت بیان سے کیسے میل کھاتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے؟‘ کیا مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے بیٹے جئے شاہ کے آئی سی سی کے سربراہ ہونے سے ہندوستان کی شمولیت کا پلڑا بھاری ہو گیا؟ یا اگر سیاست اور کھیل کو الگ رکھنا ہے، جس کا جواب ہوگا ’نہیں‘، تو پھر ہاتھ نہ ملانے کا کھیل مخالف رویہ کیوں اختیار کیا جائے، جبکہ یہ ’کرکٹ کی روح‘ کا اتنا لازمی حصہ ہے؟ اپنے سیاسی کھیل میں کرکٹرز کو مہرے کی طرح کیوں استعمال کیا جائے؟

Published: undefined

چاہے جو بھی دلائل دیے جائیں، توازن قائم رکھنے کی کوشش بری طرح بگڑتی نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمرانوں کو، ذرا دیر سے ہی سہی، یہ احساس ہوا کہ ہندوستان کے دیوانے کرکٹ شائقین، جو ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ کھیلتا دیکھنے کے لیے اپنا سب کچھ لگا دیتے ہیں، پاکستان کو کوستے ہوئے بھی ٹیم بھیجنے کے اس دوغلے فیصلے سے بے زار ہو گئے۔ ہاتھ نہ ملانے کا یہ عارضی قدم شاید نقصان کم کرنے کی سیاسی کوشش تھی۔ حکومت، بی سی سی آئی یا ہندوستانی کرکٹ ادارے کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑا کہ ہندوستانی ٹیم اور اس کے کپتان سوریہ کمار یادو کو ان کی جیت میں اتنا حقیر، اتنا چھوٹا دکھایا گیا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined