
بہار میں ایک خشک ہوتی ندی، تصویر @sanjeevsinghx
گوپال گنج میں جب لوگ چھٹھ کے لیے ندیوں کی طرف جا رہے تھے، تو بارش میں تباہی مچانے والی گھوگھاری، دھمئی اور سیاہی ندیوں میں پانی ہی نہیں تھا۔ سیاہی ندی کا بیشتر حصہ کھیت میں بدل گیا ہے۔ بکسر کی کاؤ ندی کے حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ سمستی پور میں تقریباً 60 کلومیٹر بہنے والی جمواری ندی کی چوڑائی تقریباً 60 سال قبل 150 میٹر تھی۔ گاد کے سبب پہلے اس کا بہاؤ مدھم ہوا تھا، اور جب اس کی بنیاد والے مقام پر سلیوس گیٹ لگا دیا گیا تو وہ بھی گاد سے بند ہو گیا۔ اس طرح اب اس میں پانی ہفتہ بھر نہیں نظر آتا کیونکہ اس کی گہرائی ہی نہیں ہے۔
Published: undefined
ان 3 مقامات کے ذکر کی وجہ کچھ خاص ہے۔ چھٹھ سے پہلے 24 اکتوبر کو وزیر اعظم نریندر مودی جب سمستی پور میں ووٹ کی اپیل کرتے ہوئے لوگوں کو چھٹھ کی مبارکباد دے رہے تھے، تب انہیں کسی نے یہ بتانے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ نتیش کمار کی این ڈی اے حکومت نے جمواری ندی کا کیا حال کر دیا ہے۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اس سے ایک دن بعد 25 اکتوبر کو بکسر میں تھے، تب کاؤ ندی کی حالت کے بارے میں انہیں معلوم ہی نہیں تھا۔ امت شاہ نے تقریباً 6 ماہ پہلے مارچ میں ہی گوپال گنج میں انتخابی مہم شروع کی تھی، تب بھی گھوگھاری، دھمئی اور سیاہی ندیوں کے بارے میں انہیں کچھ نہیں معلوم تھا۔
Published: undefined
مودی-شاہ کو اس لیے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صرف یہ چھوٹی ندیاں ہی نہیں، نیپال سے آنے والے پانی کی وجہ سے سیلاب کی تباہی پیدا کرنے والی کوسی، گنڈک، گنگا وغیرہ تقریباً نصف درجن بڑی ندیوں کی بھی بدحالی 2 وجوہات سے ہے۔ پہلی، ان میں گاد اتنا بھر چکا ہے کہ پانی ٹھہرتا ہی نہیں۔ دوسری، ان ندیوں سے قانونی سے زیادہ غیر قانونی ریت (بالو) نکالنے کا عمل اتنا بڑھ چکا ہے کہ مستقبل کے لیے بھی کوئی امید نہیں بچتی۔
Published: undefined
بہار اسٹیٹ مائننگ کارپوریشن لمیٹڈ کے ذریعے 2025 میں شائع ماحولیاتی آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ندیوں میں جہاں پانی ہونا چاہیے وہاں گاد بھر گئی ہے، اور اب وہ پانی محفوظ رکھنے کی جگہ ریت نکالنے کی کان بن گئی ہیں۔ 2024 میں نیشنل گرین ٹربیونل نے بھی سون اور گنگا ندی گھاٹوں میں غیر قانونی ریت نکالنے کی جانچ کے احکامات دیے تھے۔ اس پر ریاستی حکومت نے اس کی جانچ ’او سی او- اینویرو مینجمنٹ سالیوشن‘ اور ’کاگنیزنس ریسرچ انڈیا پرائیویٹ لمیٹڈ‘ سے کرائی تھی۔ اس کے لیے ڈرون سروے اور جیو اسپیشل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بیشتر جگہوں پر بالو کی حد سے زیادہ ڈھلائی نے ندی کی سطح کو نیچے دھکیل دیا ہے۔ اس کے باعث آبی سطح میں کمی اور خشک سالی کی حالت پیدا ہو گئی ہے۔ پہلے کی دیگر رپورٹس کی طرح یہ بھی سرخ بستے میں بند رہی۔ 2021 کی سی اے جی رپورٹ کا میڈیا میں خوب چرچا رہا، لیکن ان پر بھی حکومت نے آنکھ، کان بند رکھے۔ یہ رپورٹ دسمبر 2022 میں اسمبلی میں پیش بھی کی گئی تھی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 18 ضلعوں میں ندیوں سے ایمبولینس، کار، آٹو رکشہ، موٹر بائیک سے ریت ڈھوئی گئی۔ ان کے لیے 2,43,811 ای-چالان بنے اور ان گاڑیوں سے ہی 10.89 لاکھ میٹرک ٹن مورنگ ڈھو لیا گیا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ ’’دستیاب سیٹلائٹ امیجوں کے مطابق، پٹنہ کے 24 میں سے 20، بھوجپور کے 36 میں سے 28 اور روہتاس کے 26 میں سے 16 گھاٹوں میں کان کنی ہوتی پائی گئی۔‘‘ بہار کے اکاؤنٹنٹ جنرل (آڈٹ) رام اوتار شرما نے 18 دسمبر 2022 کو پٹنہ میں پریس کانفرنس میں یہ تک کہا کہ ’’ہم نے جن گھاٹوں کا مطالعہ کیا، سب میں غیر قانونی کان کنی پائی گئی۔ ہر سال یہ غیر قانونی کانکنی بڑھتی جا رہی ہے۔ بغیر ماحولیاتی منظوری کے ہی کانکنی کی جا رہی ہے۔ مورنگ ڈھونے کے لیے غیر حقیقی قسم کی گاڑیوں کا استعمال ہو رہا ہے۔‘‘
Published: undefined
ندیوں کی ’موت‘ کا صرف یہی سبب نہیں ہے۔ گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران بہار میں ندیوں پر تقریباً 1,874 پُل بنے ہیں۔ دیہی کارکردگی محکمہ کو 4,415 پُلوں کی تعمیر کی منظوری ملی جن میں سے اب تک 2,551 پل مکمل ہو چکے ہیں۔ ندی پار کرنے میں آسانی کے خیال سے بنائے گئے ان پلوں کے لیے ندیوں میں کھڑے کیے گئے ہزاروں ستونوں اور تعمیر و کھدائی سے نکلا ملبہ ندی میں ہی پھینک دیا گیا۔ اس سے بھی ندیوں کی گہرائی ختم ہوتی گئی اور اب ان میں اچھے مانسون کا پانی سمیٹنے کی صلاحیت باقی نہیں رہی۔
Published: undefined
یہ بہار اور جھارکھنڈ کے لیے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ مذکورہ بالا 2 بڑی وجوہات سے جو پانی سال بھر یہاں کی زندگی کا سہارا ہو سکتا تھا، وہ ابھی ہی خزاں کے موسم میں غائب ہو گیا ہے۔ ان وجوہات سے ہی بہار کی ابلتی ندیوں کے پانی کی بڑی مقدار گنگا کے راستے خلیج بنگال میں جا کر بے کار ہو رہی ہے۔ یہی حال شمالی اور جنوبی بہار کی تمام ندیوں کا ہے، جن کا سنگم گنگا میں ہوتا ہے۔ آبی وسائل محکمہ کے اعداد و شمار کے مطابق ہر دن 5 سے 10 لاکھ کیوسک پانی گنگا ہوتے ہوئے خلیج بنگال میں جا رہا ہے۔ اس کے نتیجہ میں وقتی طور پر تو گنگا کا پانی بڑھتا ہے، لیکن کچھ ہی وقت میں یہ نیچے آ جاتا ہے۔ سیلاب کی تباہی کی بھی یہی وجہ ہے۔ اگر بارش واقعی اوسط سے 6 فیصد زیادہ ہو جاتی ہے، تو ہماری ندیوں میں اتنی جگہ نہیں کہ وہ اس طغیانی کو سنبھال سکیں۔ نتیجتاً، سیلاب اور تباہی کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ گاد کے سبب پہلے ندی کی دھارا سست ہوتی ہے، پھر خشک بہاؤ والے علاقے کو کوڑا گھر بنا دیا جاتا ہے اور پھر کوئی وہاں کھیتی کرتا ہے تو کوئی بستی بسا لیتا ہے۔ پہلے ندیوں کے ساتھ آنے والی گاد ندی کے کنارے والے علاقوں میں پھیل جاتی تھی اور وہ کھیتوں کے لیے زرخیزی کا کام کرتی تھی۔ اب پشتے ندی کے فطری بہاؤ کو روک رہے ہیں اور اس سے ندی کی گہرائی میں کیچڑ جمع ہو گیا ہے۔ اسی کے باعث بارش کا پانی اب ان میں ٹھہرتا نہیں۔
Published: undefined
ایسا بھی نہیں ہے کہ مودی کی قیادت والی حکومت کو ندیوں کے اس حال کا اندازہ نہیں ہے۔ 2016 میں مرکزی حکومت کے ذریعہ تشکیل دی گئی ’چتلے کمیٹی‘ نے صاف کہا تھا کہ ندی میں بڑھتی گاد کا واحد حل یہی ہے کہ ندی کے پانی کو پھیلنے کی مناسب جگہ ملے؛ گاد کو بہنے کا راستہ دیا جائے؛ پشتے اور ندی کے بہاؤ کے علاقے میں تجاوزات نہ ہوں اور زیادہ گاد والی ندیوں کے سنگم والے مقام سے باقاعدہ گاد نکالنے کا کام ہو۔ یہ سفارشات بھی ٹھنڈے بستے میں بند ہیں۔
Published: undefined
بہار میں تو اتھلی ہوتی ندیوں میں گنگا سمیت 29 ندیوں کا درد ہے کہ ندیوں کے تیز بہاؤ کے ساتھ آئے ملبے سے زمین کٹاؤ بھی ہو رہا ہے اور کئی جگہ ندی کے درمیان جزیرے بن گئے ہیں۔ تنہا فرخہ سے ہو کر گنگا ندی پر ہر سال 73.6 کروڑ ٹن گاد آتی ہے جن میں سے 32.8 کروڑ ٹن گاد اس بیراج میں ٹھہر جاتی ہے۔ جھارکھنڈ کے صاحب گنج میں گنگا اپنے روایتی گھاٹ سے 5 کلومیٹر دور چلی گئی ہے۔ 19ویں صدی میں بہار میں، جس میں آج کا جھارکھنڈ بھی شامل تھا، 6,000 سے زیادہ ندیوں کا بہاؤ تھا۔ ان کی تعداد آج گھٹ کر 600 رہ گئی ہے۔ ندیوں کے دونوں کناروں پر سیلاب سے بچنے کے لیے ہزاروں کلومیٹر کے پختہ پشتے ہیں۔
Published: undefined
یہ مسئلہ اس لیے بھی 4 گنا رفتار سے بڑھ رہا ہے کیونکہ بہار میں کچرے کا نظم عام لوگوں کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ریاست کے چپے چپے میں پھیلے آبی ذخائر کے جال کو اتھلا کرنے کا کام یہی کچرا کر رہا ہے۔ زیادہ تر مقامی بلدیاتی اداروں کے اپنے بجٹ بہت کم ہیں اور تکنیکی علم اس سے بھی کم ہے۔ اس لیے وہ سب سے سستا طریقہ یہی سمجھتے ہیں کہ چھوٹی ندیوں میں کچرا بہا دیا جائے۔
Published: undefined
یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ بی جے پی کی مجبوری ہے، وہ نتیش کے کندھے پر سوار ہو کر ہی انتخابی دریا پار کر سکتی ہے۔ لیکن ’نہ کھاؤں گا، نہ کھانے دوں گا‘ کا دعویٰ کرنے والے مودی کو یہ سب بدعنوانی اور بدنظمی نہیں نظر آتی، اور ’سُشاسن بابو‘ کا تمغہ لگائے نتیش ندیوں کی زندگی کی رگ مٹانے میں لگے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined