فکر و خیالات

غزہ میں اسرائیلی مظالم: امن منصوبے کی آڑ میں نسل کشی

اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، جسے اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے ادارے تسلیم کر چکے ہیں۔ امریکی امن منصوبہ دراصل قبضے کو دوام دینے کی کوشش ہے، نہ کہ حقیقی امن کی

<div class="paragraphs"><p>تصویر اے آئی</p></div>

تصویر اے آئی

 

غزہ میں روزانہ مرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اگرچہ غزہ کی وزارت صحت ان ہولناک اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھ رہی ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں سرکاری اعداد و شمار حقیقت سے کم ہی ہوتے ہیں۔ دنیا اس قتل عام کو خاموشی سے دیکھ رہی ہے اور نسل کشی کے اصل مجرم ’امن منصوبے‘ کی آڑ میں الٹی میٹم جاری کر رہے ہیں۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ غزہ میں جو لوگ زندہ بچ گئے ہیں، وہ ان سب کا کیا مطلب نکال رہے ہوں گے۔

دنیا آواز اٹھا رہی ہے۔ 12-13 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 142 کے مقابلے میں 10 ووٹوں سے دو ریاستی حل کے لیے نیویارک اعلامیہ کی حمایت کی، جبکہ مغربی ممالک کے ایک بڑے گروہ نے ایک خیالی فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا۔ کئی دہائیوں بعد یہ پہلا موقع ہے جب دنیا فلسطینی ریاست کے حق میں یک زبان ہو رہی ہے لیکن جب عالمی رہنما اسرائیل کی مذمت کر رہے تھے اور کچھ فلسطینی ریاست کو تسلیم کر رہے تھے، تب بھی غزہ پر حملے جاری تھے۔ نیتن یاہو کے خطاب کے دوران جب کئی نمائندے ہال سے باہر چلے گئے، تب بھی اسرائیلی وزیراعظم کا لہجہ نرم نہ ہوا اور انہوں نے غزہ میں ’کام مکمل کرنے‘ کے عزم کا اظہار کیا۔

Published: undefined

فی الحال، امریکی صدر ایک ’امن منصوبہ‘ لے کر آئے ہیں، جس کا مقصد غزہ کی حکومت، سلامتی اور معیشت کو نئے سرے سے ترتیب دینا بتایا جا رہا ہے۔ نیتن یاہو نے اس منصوبے میں اہم تبدیلیاں کیں تاکہ اسرائیلی فوج کی واپسی کی رفتار سست رہے اور فوج کو غزہ پٹی کے بڑے حصے پر قبضہ برقرار رکھنے میں مدد ملے۔ اس منصوبے کا مسودہ تیار کرتے وقت کسی بھی فلسطینی سے، حتیٰ کہ نمائشی طور پر بھی، مشورہ نہیں لیا گیا۔ اس منصوبے میں غزہ کے عبوری انتظام کے لیے ایک ’امن بورڈ‘ بنانے کی تجویز ہے، جس کے سربراہ خود ٹرمپ ہوں گے اور اس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہوں گے۔ اس 20 نکاتی منصوبے میں ایک فورس کی تعیناتی کا بھی ذکر ہے جو حالات معمول پر آنے تک وہاں موجود رہے گی، تاہم اس کی تفصیلات ابھی واضح نہیں۔

منصوبے کے مرکز میں مکمل غیر عسکریت پسندی اور حماس کو اقتدار سے ہٹانے کی شرط ہے، جو کئی فلسطینیوں کے لیے مکمل شکست کے مترادف ہے۔ اگر حماس اس منصوبے کو قبول بھی کر لے، تب بھی ماضی کی ناکام کوششوں کو دیکھتے ہوئے اس کی کامیابی پر شدید شکوک و شبہات قائم رہیں گے۔ زمینی سطح پر تو شک اور بھی گہرا ہے۔ سب سے پہلے اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جانا ہے اور خاص طور پر ٹرمپ کی باتوں کی ’قابل اعتباریت‘ کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کی رہائی کے بعد کیا ہوگا۔ دوسرا، منصوبے کے نفاذ کی نگرانی کیسے ہوگی، یہ بھی واضح نہیں ہے، جو اعتماد پیدا کرے۔

Published: undefined

مارچ کے وسط میں جنوری 2025 کی جنگ بندی کو یکطرفہ طور پر ختم کرنے کے بعد سے اسرائیلی فوج نے غزہ میں اپنی موجودگی بڑھا دی ہے اور اب غزہ شہر کے نصف سے زیادہ حصے اور غزہ پٹی کے تین چوتھائی سے زائد علاقے پر اس کا کنٹرول ہے۔ سیٹلائٹ تصاویر اور زمینی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ بفر زون اور راہداری بنانے کے لیے کس طرح غزہ کے بڑے حصے کو ہموار کر دیا گیا ہے۔ جو کچھ بچا ہے، وہ کھنڈرات ہیں جہاں لاکھوں لوگ اب بھی پھنسے ہوئے ہیں۔

خاص طور پر جنگ بندی کے بعد کا دور انتہائی خوفناک رہا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ہزاروں افراد مارے گئے ہیں، جن میں سے کئی تو صرف خوراک یا امداد لینے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ اقوام متحدہ کی امدادی کوششوں کی جگہ جو عسکریت زدہ ’غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن‘ (جی ایچ ایف) قائم کیا گیا ہے، وہ موت کا جال بن گیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے درج کیا ہے کہ کس طرح امدادی قافلوں اور ترسیلی مراکز کے آس پاس بے بس خاندانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایمنسٹی نے اسے ’شکار کو پھانسنے والا جال‘ قرار دیا ہے۔

Published: undefined

اقوام متحدہ کا تحقیقاتی کمیشن اب اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ 1948 کے جینوسائیڈ کنونشن کے مطابق نسل کشی کی پانچ علامات میں سے چار غزہ میں موجود ہیں: قتل، شدید جسمانی نقصان، جان بوجھ کر تباہ کن حالات پیدا کرنا، اور پیدائش روکنے کے اقدامات۔ اسرائیلی رہنماؤں کی جانب سے فلسطینیوں کو ’انسانی حیوان‘ کہنا اور غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی اپیل نسل کشی کی نیت کا واضح ثبوت ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے بھی یہی مؤقف اپنایا ہے۔ اس نے درج کیا ہے کہ کس طرح اسرائیل نے جان بوجھ کر فلسطینیوں کو پانی سے محروم رکھا، جس کی وجہ سے ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل بھوک کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور جان بوجھ کر تباہ کن حالات پیدا کر رہا ہے۔ معروف نسل کشی کے ماہرین، جن میں سے کچھ پہلے اس اصطلاح کے استعمال کے خلاف تھے، اب اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے۔ دو اسرائیلی انسانی حقوق کے گروپوں نے بھی یہی زبان استعمال کی ہے، جیسا کہ اسپین سمیت کئی حکومتوں نے کیا ہے۔

Published: undefined

اسرائیل ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔ نیتن یاہو نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ اگر اسرائیل کا ارادہ نسل کشی کا ہوتا، تو ’وہ اسے ایک ہی دوپہر میں مکمل کر سکتا تھا۔‘ تقریباً دو سال سے اسرائیل بے خوف ہو کر بین الاقوامی قوانین کو نظر انداز کر رہا ہے۔ اس نے انسانی امداد کو یقینی بنانے کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف کے لازمی احکامات کو نظر انداز کیا ہے۔ اس نے نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گالینٹ کے خلاف آئی سی سی کے گرفتاری وارنٹ کو بھی نظر انداز کیا ہے؛ ان وارنٹس میں ان پر جنگ میں بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا الزام ہے۔

جبکہ اقوام متحدہ کے کمیشن سمیت بیشتر بین الاقوامی ادارے کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے، اس کی پارلیمنٹ نے جنگی کوششوں کو اپنے قومی بجٹ میں مزید اہمیت دی ہے۔ 29 ستمبر کو نیسیٹ نے دفاعی اخراجات کے لیے اضافی 9.3 ارب ڈالر کی منظوری دی، جس سے 2025 کا دفاعی بجٹ بڑھ کر 42 ارب ڈالر ہو گیا۔ انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے اعلان کیا کہ جنگ کے دوران فوج اور اس کی ضروریات کو تمام تنازعات سے بالاتر رکھا جانا چاہیے۔ اسرائیل اس جنگ میں اربوں ڈالر جھونک رہا ہے، اس نے پہلے ہی غزہ کو ملبے میں تبدیل کر دیا ہے، بچوں کو بھوکا مار دیا ہے اور تقریباً پوری آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔

Published: undefined

اسرائیل زور دے کر کہتا ہے کہ اس کا غزہ پر قبضے کا کوئی منصوبہ نہیں، بلکہ وہ غیر معینہ مدت تک سکیورٹی کنٹرول برقرار رکھنا چاہتا ہے اور شہری انتظام دوسروں کو سونپنا چاہتا ہے۔ یہ دراصل ایک ’جعلی قبضہ‘ ہے! اس کا اصل مقصد واضح ہے: غزہ کی آبادیاتی ساخت کو ہمیشہ کے لیے بدل دینا، فلسطینی علاقوں کو تقسیم کرنا اور فلسطینی خودمختاری کو ایک خواب بنا دینا۔ اس دوران، مغربی کنارے پر اسرائیل نے بستیوں کی تعمیر کو دوگنا کر دیا ہے اور پابندیاں سخت کر دی ہیں، جس سے علاقہ مؤثر طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ ایلنبی کراسنگ، جو فلسطینیوں کے لیے بیرونی دنیا سے جڑنے کا واحد زمینی راستہ تھا، اگلی اطلاع تک بند کر دیا گیا ہے۔

غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر اب بحث کی گنجائش نہیں رہی۔ دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ: یہ بھوک سے مارنے، تباہی پھیلانے کی ایک منصوبہ بند کارروائی ہے، یہ نسل کشی ہے اور نسل کشی کنونشن کے تحت اس کے تمام دستخط کنندہ ممالک پر لازم ہے کہ وہ اسے روکنے کے لیے جو کچھ کر سکتے ہیں، کریں۔

(مضمون نگار اشوک سوین، سویڈن کی اوپسلا یونیورسٹی میں امن اور تنازعہ کی تحقیق کے پروفیسر ہیں)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined