2 اکتوبر 2025 ایک غیرمعمولی سنگم کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دن مہاتما گاندھی کی 156 ویں یوم پیدائش، وجے دشمی کا تہوار اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے قیام کی 100 ویں سالگرہ کا دن ہے۔ یہ امتزاج اس تلخ حقیقت کو اور نمایاں کرتا ہے کہ گاندھی جی کا نظریہ ’شمولیاتی ہندوازم‘، جو ’سروا دھرم سمبھاو‘ یعنی تمام مذاہب کے لیے مساوی احترام پر مبنی تھا، بنیادی طور پر آر ایس ایس کے ’اخراجی ہندوتوا‘ کے خلاف کھڑا ہے، جو ثقافتی یکسانیت اور اکثریتی دعوے پر زور دیتا ہے۔
یہ دن اس بات کی علامت ہے کہ ہندوستان کی جمہوری سیاست میں ہم آہنگی پر مبنی کثرتیت اور اخراجی قوم پرستی کی کشمکش آج بھی زندہ ہے۔
Published: undefined
گاندھی کے نزدیک ہندوازم (ہندو دھرم) کوئی سخت گیر عقیدہ نہیں تھا بلکہ سچ کی تلاش کا راستہ تھا۔ انہوں نے قدیم صحیفوں سے رہنمائی لی مگر دلیل، رحم اور انسان دوستی کو بنیاد بنایا۔ ان کے گیارہ اصول اور ’اہنسا‘ (عدم تشدد) کا تصور، تمام مذاہب کے احترام کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔
گاندھی جی مذہب کو اخلاقی و سماجی خدمت کا ذریعہ سمجھتے تھے، اقتدار کا آلہ نہیں۔ ان کے نزدیک ہندو دھرم سب کے لیے کھلا تھا، صرف ہندوؤں تک محدود نہیں۔ ان کا عملی مظاہرہ اس وقت ہوا جب وہ مسجدوں اور مندروں کو یکساں اہمیت دیتے، خلافت-کانگریس اتحاد کو آگے بڑھاتے اور فرقہ وارانہ فسادات کے دوران روزے اور انشن کرتے۔
ان کے نزدیک قومی یکجہتی تبھی ممکن تھی جب مختلف مذاہب ایک دوسرے کا احترام کریں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اخراجی قوم پرستی کو ’سچے ہندو دھرم‘ کے خلاف قرار دیتے تھے۔
Published: undefined
آزادی کی جدوجہد کے دوران بعض تحریکوں نے قومیت کو محدود کر کے صرف ہندو شناخت پر مرکوز کرنا شروع کیا۔ وینائک ساورکر اور بعد میں ہندو مہاسبھا و آر ایس ایس نے ’ہندو راشٹر‘ کا نظریہ پیش کیا، جس میں اکثریتی تسلط اور اقلیتوں کے حاشیہ برداری کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔
1925 میں قائم ہونے والا سنگھ (آر ایس ایس) نظم و ضبط اور اکثریتی دعوے پر مبنی سیاست کے ذریعے طاقتور ہوتا گیا۔ یہ نظریہ آسانی سے لوگوں کی بے چینی کو ’ہم بمقابلہ وہ‘ کے فریم میں بدل دیتا تھا۔ اس کے برعکس گاندھی کا اخلاقی راستہ سخت محنت، قربانی اور وسیع قلبی وسعت چاہتا تھا۔
Published: undefined
گاندھی نے فرقہ واریت کو صرف نظریاتی طور پر نہیں بلکہ عملی اقدامات سے بھی چیلنج کیا۔ انہوں نے خلافت تحریک کے ذریعے ہندو-مسلم اتحاد کو آگے بڑھایا، فسادات کے دوران امن قائم کرنے کے لیے جان کی بازی لگائی اور تقسیم کی مخالفت میں ڈٹے رہے۔
ان کی زندگی کا سب سے بڑا سانحہ 1948 میں اس وقت پیش آیا جب انہیں اخراجی نظریے کے حامی نے قتل کر دیا۔ مگر ان کی موت نے اس فکری خلیج کو اور زیادہ نمایاں کر دیا۔ گاندھی جی کے قتل کے بعد آر ایس ایس سمیت کچھ مخصوص تنظیموں کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور مذہبی منافرت پر مبنی سیاست پر وقتی طور پر لگام لگ گئی۔
گاندھی کی تحریکیں، نمک ستیہ گرہ اور عدم تعاون نے مختلف مذاہب اور طبقات کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا۔ وہ چھواچھوت کے خلاف کھڑے ہوئے، ذات پات کے نظام کو توڑنے کی کوشش کی اور مذہب کی تبدیلی کے بجائے اندرونی اصلاح کو ترجیح دی۔ ان کے نزدیک شہریت کا مطلب اخلاقی مساوات تھا، ثقافتی یکسانیت نہیں۔ یہ تصور براہ راست ہندوتوا کے بیانیے کے برعکس تھا، جو سیاسی حقوق کو ثقافتی شناخت سے باندھنے کی کوشش کرتا ہے۔
Published: undefined
گاندھی کا ’شمولیت پر مبنی ہندوازم جذباتی انتقام یا شکایتی سیاست کا متبادل تھا۔ انہوں نے دلتوں کو وقار دلانے کے لیے عدم تشدد اور تعمیری پروگراموں کو اپنایا۔ گاؤں کی اصلاح، چھواچھوت کے خلاف کام اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے ان کی مہمات، اس بات کی عملی مثالیں ہیں۔ اس کے برعکس ہندوتوا نے ایک منظم ڈھانچہ قائم کیا، جو مقامی شاکھاؤں، کیڈروں اور سیاسی بازوؤں کے ذریعے اپنی جڑیں مضبوط کرتا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گاندھی جی کے اخلاقی دباؤ کے باوجود آر ایس ایس کا نیٹورک وقت کے ساتھ پھیلتا گیا۔
گاندھی کے قتل کے بعد وقتی طور پر آر ایس ایس پر پابندی لگی مگر تنظیم اور اس کے اتحادی مزید طاقتور ہوتے گئے۔ اس کے برعکس گاندھی کی عدم تشدد پر مبنی سیاست کو ادارہ جاتی شکل نہیں مل سکی۔ تاہم ان کا ورثہ ہندوستانی آئین میں زندہ ہے، جو مذہبی مساوات اور کثرتیت کو بنیادی اصول کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔
آج جب ثقافتی اور مذہبی پولرائزیشن دوبارہ سر اٹھا رہی ہے، گاندھی کا فلسفہ ایک نہایت اہم توازن فراہم کرتا ہے۔ سچائی، عدم تشدد اور بین المذاہب مکالمے پر ان کا زور اکثریتی بیانیوں کے خلاف مؤثر تریاق ہے۔ تقسیم پسند نظریات کے ناقدین آج بھی گاندھی جی کی اس واضح تمیز کو یاد دلاتے ہیں جو انہوں نے شمولیت پر مبنی ہندو اقدار اور جارحانہ قوم پرستی کے درمیان قائم کی تھی۔ اخراجی گروہ جب گاندھی جی کے ورثے کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ان کی کثرت پسندی کو نظرانداز کر دیتے ہیں، تو یہ اسی جاری جدوجہد کی علامت ہے جو ان دو متضاد نظریات کے بیچ جاری ہے۔
Published: undefined
گاندھی جی کی قوم پرستی یکسانیت نہیں بلکہ تنوع کو گلے لگاتی تھی۔ ان کی آفاقی اخوت بالادستی کے بجائے روحانی ہم آہنگی پر مبنی تھی، جو آج بھی دنیا کے شناختی تصادمات کے دوران معنویت رکھتی ہے۔ مکالمہ، اخلاقی حکمرانی اور باہمی احترام—جو گاندھی کے ہندو دھرم کی اساس تھے آج کے فرقہ وارانہ تناؤ اور پولرائزیشن سے نمٹنے کے لیے ایک راستہ پیش کرتے ہیں۔
گاندھی جی کا قتل ان کے پیغام کو خاموش کر دینے کی کوشش تھی لیکن اس نے ان کے اتحاد کے عزم کو مزید بلند کر دیا۔ ان کا شمولیت پر مبنی ہندو دھرم، جو برداشت اور آفاقی سچائی سے عبارت تھا، آج بھی تقسیم کرنے والے نظریات کے مقابلے میں روشنی کا مینار ہے۔ کثیرالمذہب اور کثیرالثقافتی ہندوستان میں گاندھی کا ورثہ دیواریں کھڑی کرنے کے بجائے پل تعمیر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
Published: undefined
ہندوستان کی جمہوری کثرتیت کو برقرار رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ قیادت اور عوام گاندھی کے اصولوں (بین المذاہب مکالمے کو فروغ دینا، حکمرانی میں مساوات کو یقینی بنانا اور مشترکہ تہذیبی روایات کا جشن منانا) سے رہنمائی لیں۔ تعلیم کے ذریعے مشترکہ ثقافتی ورثے کو اجاگر کرنا تقسیم پسند بیانیے کا مؤثر جواب ہو سکتا ہے۔ اسی طرح غیر جانب دار قانون نافذ کرنے والے ادارے اور فرقہ وارانہ تنازع کی پیش بندی کرنے والے اقدامات اس وژن کی تکمیل کے لیے ناگزیر ہیں۔
ہندوستان ایک اور تاریخی موڑ پر کھڑا ہے۔ گاندھی کا یہ تصور کہ قوم کی بنیاد اخلاقی اقدار اور باہمی احترام پر ہو، ہمارے لیے ایک رہنما اصول ہے۔ اگر ہم ’سروا دھرم سمبھاو‘ کو اپنائیں اور اخراجی قوم پرستی کو رد کریں تو ہم نہ صرف گاندھی جی کے ورثے کو عزت بخش سکیں گے بلکہ ہندوستان کی جمہوری اور کثرتی شناخت کو بھی مضبوط بنا سکیں گے۔ ایک بٹے ہوئے عالمی منظرنامے میں یہ پیغام ہندوستان کے مستقبل کے لیے بے حد اہم ہے۔ گاندھی کی کوششوں کو، ان کی تمام طاقتوں اور کمزوریوں کے ساتھ سمجھنا، آج کثرتیت کے دفاع کے لیے ناگزیر ہے۔
مضمون نگار حسنین نقوی، سینٹ زیویئرز کالج، ممبئی کے شعبہ تاریخ سے وابستہ رہ چکے ہیں)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined