علامتی تصویر / اے آئی
ڈاکٹر وزیر خاں کا شمار اُن گم نام مگر عظیم سپاہیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے تحریکِ آزادی میں بے مثال قربانیاں دیں۔ انہوں نے نہ صرف علم و فن کے ذریعے برطانوی سامراج کو للکارا بلکہ میدانِ جنگ میں بھی جرات و بہادری کا شاندار مظاہرہ کیا۔
ڈاکٹر وزیر خاں کے والد محمد نذیر خاں پٹنہ کے بڑے زمیندار تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہیں انگریزی تعلیم کے لیے مرشد آباد بھیجا گیا، جہاں سے وہ طب کی اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ روانہ ہوئے۔ میڈیسن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے عبرانی اور یونانی زبانیں سیکھیں اور توریت و انجیل کا گہرا مطالعہ کیا۔ تعلیم مکمل کر کے وطن واپس آئے اور کلکتہ کے ایک ہسپتال میں اسسٹنٹ سرجن مقرر ہوئے۔ بعد ازاں آگرہ میں تقرر ہوا اور محلہ کاغذ یان تاج گنج میں سکونت اختیار کی۔
Published: undefined
آگرہ میں اپنی قابلیت اور ذہانت کی بدولت انہوں نے اہلِ علم اور معززین کو متاثر کیا۔ اسی دوران مفتی آزردہ کی ہدایت پر مولوی احمد اللہ عرف ڈنکا شاہ آگرہ پہنچے اور مجلسِ علماء کی تشکیل کی، جس کا مقصد کمپنی کے خلاف عوام و علماء کو یکجا کرنا تھا۔ ڈاکٹر وزیر خاں بھی اس تحریک کا حصہ بن گئے۔
اس زمانے میں کمپنی نہ صرف سیاسی غلبہ حاصل کرنے کی کوشش میں تھی بلکہ دیگر مذاہب کی تذلیل بھی کر رہی تھی۔ 1853 میں پادری فنڈر عیسائیت کی تبلیغ کے لیے ہندوستان آیا اور دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر اسلام کے خلاف تقاریر کرنے لگا۔ اس وقت کے اکثر علماء مذہبِ عیسائیت کے علمی نکات سے واقف نہ تھے، مگر آگرہ میں ڈاکٹر وزیر خاں کی موجودگی نے حالات بدل دیے۔ انہوں نے پادری فنڈر کے چیلنج کو قبول کیا اور مولانا رحمت اللہ کیرانوی کو بھی مناظرے کے لیے بلا لیا۔
Published: undefined
عمائدینِ شہر اور کمپنی حکام کی موجودگی میں 1856 میں مناظرہ منعقد ہوا۔ پادری فنڈر کے اعتراضات کا جواب مولانا رحمت اللہ کیرانوی نے مدلل انداز میں دیا، جبکہ ڈاکٹر وزیر خاں نے توریت و انجیل کی تحریف پر نہایت جامع تقریر کی۔ پادری فنڈر شکست تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اس کامیابی کے بعد ڈاکٹر وزیر خاں اور مولانا کیرانوی کمپنی حکام کے نشانے پر آ گئے۔
1857 کی جنگِ آزادی میں ڈاکٹر وزیر خاں نے آگرہ کے انقلابیوں کی قیادت کی۔ انگریز قلعہ بند ہو گئے تو وہ جنرل بخت خاں کی مدد کے لیے دہلی پہنچے۔ بخت خاں نے انہیں اپنے ساتھ رکھا جبکہ مولوی فیض احمد بدایونی کو مرزا مغل کا پیش کار مقرر کیا گیا۔ انقلابیوں کی شکست کے آثار واضح ہونے پر بخت خاں، ڈاکٹر وزیر خاں اور فیض بدایونی نے بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو قلعہ نہ چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی، مگر بادشاہ مرزا الٰہی بخش کے زیرِ اثر فیصلہ بدلنے پر تیار نہ ہوئے۔
Published: undefined
مایوس ہو کر بخت خاں اپنی فوج کے ساتھ مشرقی دروازے سے نکل گئے اور لکھنؤ کے محاذ پر پہنچے، جبکہ ڈاکٹر وزیر خاں اور فیض بدایونی شہزادہ فیروز شاہ کے کارواں میں شامل ہو گئے۔ 29 اپریل 1858 کو ککرالہ، ضلع بدایوں میں جنرل پینی کی زیرِ قیادت برطانوی فوج سے مقابلہ ہوا۔ شکست کے بعد یہ قافلہ بریلی پہنچا۔
روہیل کھنڈ اور لکھنؤ کے سقوط کے بعد بیشتر مجاہدین نیپال کی طرف چلے گئے، مگر ڈاکٹر وزیر خاں نے شہزادہ فیروز شاہ کا ساتھ نہ چھوڑا۔ شہزادے اور برطانوی حکام کے درمیان جاری صلح نامے میں ڈاکٹر وزیر خاں کی تحریریں بھی موجود ہیں۔
Published: undefined
فیروز شاہ کے ہندوستان چھوڑنے پر ڈاکٹر وزیر خاں نے بھی حجاز کا رخ کیا اور مکہ مکرمہ میں اپنے پرانے رفیق مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے پاس قیام کیا۔ وہاں انہوں نے مطب کھول کر عوام کی خدمت شروع کی۔
مدینہ منورہ میں تقریباً پندرہ سال گزارنے کے بعد 1872 میں وہیں وفات پائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ ان کی زندگی جہاد، علم اور خدمتِ خلق کا حسین امتزاج تھی۔ افسوس کہ ان کی قربانیاں تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو گئیں، مگر ان کا کردار تحریکِ آزادی کے سنہری باب کا حصہ ہے، جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined