
افغان خواتین / Getty Images
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں طالبان حکام نے خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کو شدید طور پر محدود کر دیا ہے، انہیں کھیلوں اور 12 سال کی عمر کے بعد تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا ہے۔ یہ ایک ایسا منظرنامہ ہے جس کی دنیا بھر میں مذمت کی جاتی ہے، اور زیادہ تر لوگ طالبان پر دباؤ ڈالنے کے لیے مکمل تنہائی اور پابندیوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تاہم، بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (آئی او سی ) کی ایک افغان رکن، سمیرا اصغری نے ایک بالکل مختلف اور متنازعہ راستہ تجویز کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت اور مکالمہ ہی آگے بڑھنے کا سب سے قابل عمل راستہ ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کوئی شخص جو خواتین کے حقوق کے لیے وقف ہے، وہ ان لوگوں سے بات کرنے کا انتخاب کیوں کرے گا جو خواتین کے حقوق پر پابندی لگاتے ہیں؟
سمیرا اصغری کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ طالبان کو الگ تھلگ کرنا غیر موثر ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عالمی برادری مکمل تنہائی اور پابندیوں کا مطالبہ کرتی ہے، اصغری کا مؤقف ہے کہ چونکہ طالبان "زمینی حقیقت" ہیں، اس لیے ان سے بات چیت سے انکار کرنا "کچھ نہ کرنے" کے مترادف ہے۔ یہ حکمت عملی اس لیے اہم ہے کیونکہ یہ رابطے کا ایک عملی، اگرچہ مشکل، راستہ اختیار کرتی ہے، اور اس اعتراف پر مبنی ہے کہ تبدیلی باہر سے مسلط کرنے کے بجائے اندر سے بات چیت کے ذریعے لائی جا سکتی ہے، چاہے وہ بات چیت کتنی ہی کٹھن کیوں نہ ہو۔ اصغری کے مطابق، "جب تک طالبان افغانستان میں زمینی حقیقت ہیں، ہم کچھ نہ کر کے وقت ضائع کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔"
Published: undefined
اصغری کا عملی طریقہ "چھوٹے مواقع" تلاش کرنا ہے۔ وہ خاص طور پر پرائمری اسکولوں میں کھیلوں کو فروغ دینے کی مثال دیتی ہیں، کیونکہ افغانستان میں چھٹی جماعت تک کی لڑکیوں کو اب بھی اسکول جانے کی اجازت ہے۔ یہ حکمت عملی طالبان کی طرف سے عائد کردہ وسیع تر پابندیوں کو نظر انداز نہیں کرتی، بلکہ ان کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کے راستے تلاش کرتی ہے۔ اس کا مقصد طالبان کی پابندیوں کو قبول کرنا نہیں ہے، بلکہ افغان لڑکیوں اور خواتین کو مکمل طور پر تنہا چھوڑنے سے انکار کرنا ہے۔ یہ موجودہ حقیقت کے ساتھ کام کرنے کے بارے میں ہے جبکہ افغانستان میں بڑی اور بنیادی تبدیلی کے لیے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
اصغری کی یہ جدوجہد گہری اور ذاتی ہے۔ ان کا یہ عزم ان کے ماضی کے تجربے سے جڑا ہوا ہے۔ جلاوطنی سے واپس آنے کے بعد، انہوں نے اپنی چھٹی جماعت کی کلاس میں ایک 20 سالہ خاتون کو اپنے ساتھ بیٹھے دیکھا، کیونکہ طالبان کے پچھلے دور (1996-2001) میں انہیں تعلیم سے محروم کر دیا گیا تھا۔ انہیں شدید تشویش ہے کہ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ یہی خوف انہیں چھوٹے سے چھوٹے مواقع سے بھی فائدہ اٹھانے پر مجبور کرتا ہے تاکہ ایک پوری نسل دوبارہ تعلیم اور ترقی کے مواقع سے محروم نہ ہو جائے۔
Published: undefined
یہی ذاتی تجربہ اور تکلیف دہ یادداشت ہے جو اصغری کی حکمت عملی کو محض ایک سفارتی موقف سے بڑھ کر ایک اخلاقی ذمہ داری بناتی ہے۔ اُن کے لیے 'چھوٹے مواقع' تلاش کرنا صرف ایک پالیسی نہیں، بلکہ تاریخ کو خود کو دہرانے سے روکنے کی ایک کوشش ہے۔ انہوں نے کہا، "جو چیز مجھے گہری تشویش میں مبتلا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ایک اور گمشدہ نسل پیدا کر رہے ہیں۔"
اصغری اور آئی او سی کی جانب سے طالبان کے سامنے پیش کیا جانے والا سب سے بنیادی اور طاقتور استدلال یہ ہے کہ ان کی بین الاقوامی قبولیت براہ راست انسانی حقوق کے احترام سے منسلک ہے۔ یہ ایک واضح پیغام ہے کہ اگر وہ عالمی سطح پر تسلیم ہونا چاہتے ہیں تو انہیں بنیادی اصولوں، خاص طور پر خواتین کے حقوق، کا احترام کرنا ہوگا۔
Published: undefined
یہ دلیل اس مسئلے کو صرف ایک اخلاقی درخواست کے طور پر پیش نہیں کرتی، بلکہ اسے طالبان کے لیے طویل مدتی حکمرانی اور عالمی سطح پر پہچان کے لیے ایک عملی شرط بناتی ہے۔ طالبان سے جاری مذاکرات میں یہی ان کی سب سے مؤثر دلیل ہے، جو اس مسئلے کو اخلاقیات سے آگے بڑھ کر عملی سیاست کے دائرے میں لے آتی ہے۔ اصغری کو یقین ہے کہ "ان کے لیے طویل مدت تک اس طرح افغانستان پر حکومت کرنا بہت مشکل ہے، اور طالبان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کی بین الاقوامی قبولیت کا براہ راست تعلق انسانی حقوق، بشمول خواتین کے تعلیم اور کھیل کے حقوق، کے احترام سے منسلک ہے۔"
اگرچہ افغانستان میں خواتین کی صورتحال انتہائی تاریک ہے، لیکن سمیرا اصغری کی حکمت عملی، جو مسلسل بات چیت اور چھوٹے مواقع کی تلاش پر مبنی ہے، ہار نہ ماننے کے عزم کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ بعض اوقات سب سے مشکل راستے ہی تبدیلی کی امید پیدا کرتے ہیں۔ جب تاریکی ہر طرف پھیلی ہوتو دور سے اس کی مذمت کرنا بہتر نہیں، بلکہ قریب جا کر ایک چھوٹی سی شمع جلانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: محی الدین التمش
تصویر: پریس ریلیز