
تصویر سوشل میڈیا
اودھ میں ایک کہاوت ہے ’دلی ابھی دور ہے‘۔ حالانکہ اس کہاوت کا صوبہ اودھ سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔ وہ تو مارچ 1325 میں بنگال سے لوٹتے وقت دلی کے سلطانِ وقت غیاث الدین تغلق نے صوفی سنت حضرت نظام الدین اولیا کو ان کے شاگرد کی معرفت پیغام بھجوایا کہ بہتر ہوگا کہ وہ اس کے پہنچنے سے پہلے دلی چھوڑ دیں۔ تب صوفی بزرگ نے کہا تھا ’ہنوز دلی دور است‘۔ یعنی غیاث الدین کے لیے دلی ابھی دور ہے۔ وہ سچ مچ دور ہی رہ گئی تھی، کیونکہ اس کے فرزند جونا خاں نے سازش رچ کر تغلق آباد سے 8 کلو میٹر دور واقع افغان پور میں اس کا قتل کرا دیا تھا اور محمد بن تغلق نام سے خود سلطان بن بیٹھا تھا۔
Published: undefined
اس سے الگ، اودھ کے نواب اپنی خواہش کے مطابق دہلی سے محبت اور نفرت کے ملے جلے رشتے رکھتے اور انگلیوں پر نچاتے رہے۔ اس چکر میں کئی بار دونوں کے درمیان عدم اعتماد بہت گہرا ہو جاتا۔ پھر بھی دونوں اقتدار خود میں گم رہتے۔ مورخین بتاتے ہیں کہ دلی میں مغل سلطنت کا زوال اور اودھ کے نوابوں کا عروج تقریباً ساتھ ہوا۔ مغل بادشاہوں کا پرچم اونچا لہرا رہا تھا، تو اودھ ان کی سلطنت کا صوبہ بھر تھا اور ان کے ذریعہ مقرر صوبیدار ان کی طرف سے اس کے اقتدار کو سنبھالا کرتے تھے۔ لیکن ان کے بُرے دنوں میں یہ صوبیدار اس کہاوت کو حقیقت میں بدلنے لگے کہ جب جب دلی کمزور ہوتی ہے، صوبیدار سر اٹھاتے ہی اٹھاتے ہیں۔
Published: undefined
9 ستمبر 1722 میں مغل بادشاہ محمد شاہ نے گردھر بہادر ناگر کو ہٹا کر اکبر آباد کے صوبیدار سعادت خاں اوّل کو اودھ کا صوبیدار مقرر کیا۔ ان دنوں صوبے میں پھیلی بد امنی ختم کرنے اور مال گزاری بڑھانے کو کہا، تو مغل سلطنت کی حالت اتنی پتلی ہو چکی تھی کہ سعادت صوبے کا خود مختار حاکم بننے کی اپنی خواہش دبائے نہیں رکھ سکے۔ جیسے ہی صوبے پر ان کی گرفت مضبوط ہوئی، انہوں نے اسے اپنی ذاتی سلطنت ہونے کا اعلان کر دیا۔
Published: undefined
اس سے قبل سعادت آگرہ کے صوبیدار ہوا کرتے تھے۔ انہیں ’برہان الملک‘ کا خطاب ملا ہوا تھا۔ اس لیے وہ آگرہ کی صوبیداری بھی اپنے پاس ہی رکھنا چاہتے تھے اور محمد شاہ کے راضی نہ ہونے کے سبب ان سے خفا تھے۔ پھر بھی انہوں نے جلد ہی اودھ میں موجود بد امنی ختم کر اس کی مال گزاری بڑھا دی تھی۔ اس کے باوجود محمد شاہ سے ان کے رشتوں کی تلخی گھٹ نہیں پائی۔ سعادت کے اودھ کو محمد شاہ ذاتی سلطنت قرار دینے کے ناقابل قبول عمل پر خاموش رہ گئے، کیونکہ وہ ان کی بے چارگی کے دن تھے۔
Published: undefined
1739 میں نادر شاہ کے پنجاب سے دلی کی طرف بڑھنے سے مغل سلطنت پر سنگین خطرہ منڈلانے لگا، تو محمد شاہ نے سعادت سے فوج کے ساتھ پہنچ کر نادر شاہ کو روکنے کی کوششوں میں شراکت داری کرنے کو کہا۔ نادر شاہ نے 27 دسمبر 1738 کو لاہور کے صوبیدار کو ہرا دیا اور دلی کی طرف قدم بڑھایا، تو محمد شاہ کو یہ سمجھتے دیر نہیں لگی کہ محض مغل فوج کے بوتے اس کو روک پانا ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے انہوں نے سعادت سمیت اپنے دیگر صوبیداروں کو بھی دلی پہنچنے اور مغل فوج سے روابط قائم کرنے کا فرمان جاری کیا۔
Published: undefined
سعادت کی غیر دور اندیشی تھی کہ انہوں نے نادر شاہ کی طاقت کا ٹھیک سے اندازہ کیے بغیر اِس مشکل وقت میں بھی ’تو بڑا کہ میں‘ کا کھیل کھیلنے کی سوچی۔ انہوں نے سوچا کہ وہ مغل فوج کی مدد کے بغیر ہی نادر سے جا ٹکڑائیں گے اور ایک جھٹکے میں اس کو دھول چٹا کر اپنا اِقبال بلند کر لیں گے۔
Published: undefined
24 فروری 1739 کو وہ کرنال جا پہنچے، جہاں نادر شاہ کی فوج نے پڑاؤ ڈال رکھا تھا۔ لڑائی شروع ہوئی تو نادر کی فوج نے اس طاقت کے ساتھ حملہ کیا کہ اودھ کی فوج حیران رہ گئی۔ بدحواس ہو کر سعادت نے محمد شاہ سے مغل فوج بھیجنے کی درخواست کی۔ تب محمد شاہ کے درباری ’کھیل‘ کر گئے۔ انہوں نے محمد شاہ کو تب تک نادر کی فوج کے پیچھے بھاگنے کی پرانی کہانی میں الجھائے رکھا، جب تک نادر نے سعادت کو بری طرح زخمی کر کے قید نہیں کر لیا۔
Published: undefined
نادر شاہ نے اپنے بادشاہ سے دھوکہ کا بھرپور صلہ بھی دیا۔ 19 مارچ 1739 کو جب وہ دلی سے 6 میل دور تھا، اس نے سعادت سے ان کے قول کے مطابق 2 کروڑ روپے مانگے اور نہ دے پانے پر سزا دینے کا حکم جاری کر دیا۔ پھر تو بے عزتی اور ظلم کی انتہا ہو گئی اور سعادت نے نادر شاہ کی قید میں ہی زہر کھا کر اپنی جان دے دی۔ نادر شاہ 19 مارچ 1739 کو دلی پہنچا اور 22 مارچ کو عوام کے قتل عام کے بعد بھی حکومت کے سارے فیصلے خود کرتا اور محمد شاہ کو اپنی انگلیوں پر نچاتا رہا۔ 15 مئی کو نادر کے واپس لوٹنے تک مغل دربار کے زیادہ تر درباری بھی اس کی ہاں میں ہاں ہی ملاتے رہے۔ انہیں لگتا تھا کہ کون جانے کب اسے ہندستان کی بادشاہت کا لالچ ستانے لگے، وہ واپس جائے ہی نہیں اور ان کو آگے اسی کے رحم و کرم پر منحصر رہنا پڑ جائے۔
Published: undefined
دوسری طرف نادر شاہ نے سعادت کی خودکشی سے خالی ہوئی اودھ کی گدی کی وراثت کا جھگڑا نمٹانے میں ساری حدیں پار کر دیں۔ اس کے 2 دعویدار تھے۔ پہلے سعادت کے بھتیجے کے بیٹے معظم عرف شیر جنگ، اور دوسرے اودھ کے سپہ سالار خاص مرزا محمد مقیم۔ مقیم تو سعادت کے بھانجے بھی تھے اور داماد بھی۔
Published: undefined
معظم نے نادر شاہ کے سامنے پیش اپنی عرضی میں کہا کہ عام طور پر وراثت پر پہلا حق بھتیجے کا ہی مانا جاتا ہے اور بھتیجے کے بیٹے کے رہتے بھانجے یا داماد کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ محمد مقیم کی دلیل تھی کہ سعادت کا من شیر جنگ کی طرف سے بہت میلا تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے نہ اسے اپنی بیٹی دی اور نہ ہی کوئی عہدہ۔ مقیم نے یہ بھی کہا کہ فیصلہ ان کے حق میں ہوا، تو وہ سعادت کے ذریعہ قید میں کیے گئے قول کے مطابق نادر شاہ کو 2 کروڑ روپے ہی نہیں، بیش قیمت ہیرے جواہرات، مال و اسباب اور ہاتھیوں کی سوغات بھی دیں گے۔
Published: undefined
پھر کیا تھا، نادر شاہ نے بے بس بادشاہ محمد شاہ سے سعادت کی وراثت مقیم کو سونپنے کا حکم نامہ جاری کرا دیا۔ یہی مقیم بعد میں نواب مرزا ابوالمنصور علی خاں صفدر جنگ کے نام سے مشہور ہوئے۔ مغل سلطنت نے بعد میں انہیں اپنا وزیر بھی بنا لیا، جس کے بعد وہ ’نواب وزیر‘ بن گئے۔
Published: undefined
پھر بھی خواہشات کا ٹکراؤ بڑھتا ہی رہا۔ محمد شاہ کے بعد احمد شاہ کے مغل بادشاہ بننے تک وہ اتنا بڑھ گیا کہ صفدر جنگ نے ان کے خلاف کھلی بغاوت کر دی اور 1753 میں 4 مئی سے 16 نومبر تک 6 مہینوں سے بھی زیادہ طویل جنگ میں الجھا کر اپنے قدموں میں لا جھکایا۔
Published: undefined
ہوا یہ کہ 1748 میں احمد شاہ ابدالی پنجاب اور ملتان صوبے لوٹ کر دلی کی طرف بڑھا اور مغل بادشاہ محمد شاہ نے صفدر جنگ کو آگے بڑھ کر اس کی راہ روکنے کا ذمہ سونپا، تو انہوں نے بہادری کے ساتھ ابدالی کو شکست دی۔ اس سے وہ ناکام ہو کر واپس لوٹ گیا۔
Published: undefined
لیکن جب تک صفدر جنگ دلی لوٹتے، بادشاہ محمد شاہ دنیا چھوڑ گئے۔ ان کے شہزادے احمد شاہ گدی پر بیٹھے، تو صفدر جنگ کی ان سے بنی نہیں۔ حالانکہ ان کو صفدر جنگ کا خطاب احمد شاہ نے ہی دیا، لیکن بات بڑھی تو ان کے قتل کی سازش بھی تیار کر ڈالی۔
Published: undefined
صفدر جنگ اچھی قسمت کے مالک نکلے اور بچ گئے تو دشمنی پر اتر آئے۔ اس پر احمد شاہ نے معافی مانگ کر انہیں الہ آباد کی صوبیداری بھی دے دی۔ لیکن بعد کی کئی جنگی مہمات میں صفدر جنگ کچھ خاص نہیں کر پائے تو ان کی ایک شکست کے بعد فرمان جاری کر دیا کہ انہیں دلی میں نہ گھسنے دیا جائے، اور گھستے ہوئے پکڑے جائیں تو ہاتھی سے باندھ کر باہر نکال دیا جائے۔
Published: undefined
حد یہ کہ 1752 میں ابدالی پھر حملہ آور ہوا تو خوفزدہ احمد شاہ نے مراٹھوں سے حفاظتی قرار کے لیے پھر صفدر جنگ کی مدد مانگی۔ لیکن بعد میں پنجاب اور ملتان ابدالی کو دے کر ہاتھ جوڑ لیے اور صفدر جنگ کے ذریعہ کرائے گئے معاہدہ کے مطابق مراٹھوں کو 50 لاکھ روپے دینے سے منع کر دیا۔ اتنا ہی نہیں، صفدر جنگ کے اختیارات میں تخفیف کر کے اودھ واپس چلے جانے کو بھی کہہ دیا۔
Published: undefined
اس سے تلملائے صفدر جنگ نے بغاوت کر ان کے خلاف ہی جنگ چھیڑ دی۔ پہلے شاہی خاندان سے باہر کے ایک نابالغ کو اکبر شاہ نام سے بادشاہ بنایا، پھر شاہی خاندان کے ہی عالمگیر کو عادل شاہ نام سے۔ وہ خود باری باری سے ان دونوں کے وزیر بنے۔ 4 مئی 1753 کو ان کے ذریعہ شروع کی گئی یہ جنگ 16 نومبر 1753 تک چل کر مراٹھوں کی مداخلت سے اس شرط پر رکی کہ احمد شاہ نوابی سمیت صفدر جنگ کے سارے اختیارات بحال کر دیں گے اور صفدر جنگ اودھ لوٹ جائیں گے۔
Published: undefined
اس کے بعد انگریزوں کی بالادستی کا دور آیا تو گورنر جنرل لارڈ ہیسٹنگز نے دلی اور لکھنؤ درباروں کو پوری طرح الگ کرنے کے لیے 1819 میں غازی الدین حیدر کو اودھ کے نواب سے بادشاہ بنا ڈالا۔ یہ سمجھا کر کہ وہ کس بات میں کم ہیں، جو مغلوں کے دبدبے میں رہیں۔ اس کے بعد اودھ کے نواب اپنے نام کے شروع میں ’نواب‘ اور آخر میں ’شاہ‘ لگانے لگے، تاکہ جیسی ضرورت ہو، ویسی کروَٹ بدل کر نوابی اور بادشاہت کا ڈبل مزہ لے سکیں۔ یہ سلسلہ انگریزوں کے ذریعہ 11 فروری 1856 کو نواب واجد علی شاہ کو معزول کرنے تک جاری رہا۔ لیکن 1857 میں دلی اور لکھنؤ ایک ہو کر لڑ سکیں، اس کے لیے برجس قدر کو صرف ’نواب‘ بنایا گیا، ’شاہ‘ نہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined