فکر و خیالات

بہار اسمبلی انتخابات: کانگریس کے اعلان نے بی جے پی کو دھرم سنکٹ میں ڈالا...عبیداللہ ناصر

بہار اسمبلی انتخابات کا نتیجہ نہ صرف ریاست بلکہ ملک کی سیاست کا رخ متعین کرے گا۔ کانگریس اور آر جے ڈی اتحاد کی مضبوط حکمتِ عملی نے بی جے پی کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے

<div class="paragraphs"><p>آئی اے این ایس</p></div>

آئی اے این ایس

 
IANS

بہار اسمبلی کے مجوزہ انتخابات صرف ریاستی سطح تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ ان کے اثرات اتر پردیش، بنگال اور آسام کے ساتھ ساتھ قومی سیاست پر بھی گہرے پڑیں گے۔ سبھی سیاسی مبصرین، پنڈت اور اہلِ نظر اس بات پر متفق ہیں کہ ان انتخابات کا نتیجہ ہندوستان کے سیاسی مستقبل اور طرزِ حکمرانی کو بڑی حد تک متعین کرے گا۔

راہل گاندھی نے گاندھیائی انداز میں ’ووٹر ادھکار یاترا‘ نکال کر بہار میں انتخابی فضا بدل دی ہے۔ اس مہم کے دو بڑے اثرات ہوئے: پہلا، الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق آدھار کارڈ کو ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنے کے لیے قابلِ قبول دستاویز ماننا پڑا۔ دوسرا، اس تحریک نے کانگریس کے کمزور ڈھانچے میں نئی جان ڈال دی۔ اب یہ بحالی بی جے پی کے لیے نہ صرف بہار بلکہ قومی سطح پر بھی ایک چیلنج بن سکتی ہے—بشرطیکہ کانگریس اور آر جے ڈی اتحاد یعنی مہاگٹھ بندھن این ڈی اے کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائے۔

Published: undefined

اگر یہ اتحاد جیت گیا تو مرکز میں مودی حکومت کے وجود پر بھی سوالیہ نشان لگ سکتا ہے اور وسط مدتی انتخابات کا امکان پیدا ہو سکتا ہے لیکن اگر کانگریس اور آر جے ڈی اتحاد ہار گیا تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہوں گے۔ نہ صرف آنے والے ریاستی انتخابات میں سیکولر اتحاد کی پوزیشن کمزور ہوگی بلکہ 2029 کے لوک سبھا انتخابات بھی ان کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں آر ایس ایس کو اپنے ’ہندو راشٹر‘ کے خواب کو پورا کرنے کا راستہ صاف مل جائے گا اور جمہوری و آئینی نظام کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔

ادھر امت شاہ نے اگرچہ اعلان کیا ہے کہ انتخاب نتیش کمار کی قیادت میں لڑا جائے گا مگر وزیر اعلیٰ کا انتخاب نو منتخب ارکان اسمبلی کریں گے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ بی جے پی نتیش کمار کو واضح طور پر وزیر اعلیٰ کے چہرے کے طور پر پیش نہیں کر رہی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی نتیش کو طویل عرصے سے برداشت کر رہی تھی اور اب وہ بہار میں اپنا ہی وزیر اعلیٰ لانا چاہتی ہے۔ مگر نتیش کمار کی سیاست کچھ ایسی ہے کہ وہ کسی بھی وقت پلٹی مارنے میں دیر نہیں لگاتے، اس لیے پولنگ ہونے تک بی جے پی کے لیے ان کے سامنے دوبارہ جھکنے کے سوا چارہ نہیں رہے گا۔

Published: undefined

سیاسی تجزیہ کاروں کی دلچسپی اس وقت انتخابی مہم سے زیادہ نتائج کے بعد کی سیاسی صورتِ حال میں ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نتیش کمار اب ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور ہو چکے ہیں۔ ان کی توجہ کا محور اب صرف اپنے بیٹے کا سیاسی مستقبل ہے، جو ابھی اس میدان میں نئے ہیں جبکہ تیجسوی یادو اور چراغ پاسوان خاصی دور نکل چکے ہیں۔

مہاگٹھ بندھن میں سیٹوں کی تقسیم ابتدا میں بڑا مسئلہ بنی رہی۔ آر جے ڈی اب بھی کانگریس کو گزشتہ الیکشن کی کارکردگی کے پیمانے پر دیکھ رہی تھی اور 40 سے 45 سیٹوں سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھی۔ جبکہ کانگریس کا موقف تھا کہ حالات بدل چکے ہیں، راہل گاندھی کی یاترا کے بعد پارٹی مضبوط ہو چکی ہے اور اسے کم سیٹیں دینے سے کارکنوں کے حوصلے پست ہوں گے۔ بہار میں کانگریس نے گزشتہ ایک سال میں تنظیمی سطح پر کافی محنت کی ہے، اس لیے اسے محدود کردار دینا ناانصافی ہوتی۔

Published: undefined

اس دوران کانگریس نے ایک بڑا سیاسی داؤ کھیلتے ہوئے مہاگٹھ بندھن کی طرف سے وزیر اعلیٰ، نائب وزیر اعلیٰ کے ناموں کا اعلان کر دیا گیا اور یہ بھی کہہ دیا گیا کہ مزید ایک یا دو وزرائے اعلیٰ بھی بنائے جا سکتے ہیں، جس سے بی جے پی دھرم سنکٹ میں پڑ گئی۔ اس اعلان کے بعد نتیش کمار کے چہرے پر اطمینان کے آثار نمایاں ہیں، کیونکہ وہ اپنے حامیوں کے ذریعے بی جے پی پر دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ انہیں ہی وزیر اعلیٰ کے طور پر پیش کیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو بی جے پی کا منصوبہ، جس میں نتیش کو ’ایکناتھ شندے‘ بنانے کی کوشش تھی، خاک میں مل جائے گا۔ دوسرے چراغ بھی اس سے چراغ پا ہو سکتے ہیں۔ پولنگ آتے آتے شاید بی جے پی کو نتیش کے سامنے پھر سرنڈر کرنا پڑ سکتا ہے۔

سوشل میڈیا اور عوامی گفتگو سے ایک اور اہم پہلو سامنے آیا ہے—بہار کے مسلمان، خاص طور پر نوجوان، شدت سے سوال اٹھا رہے ہیں کہ جب مکیش سہنی جیسے محدود ووٹ بینک والے لیڈر کو نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے کا اعلان دیا جا سکتا ہے تو کسی مسلم لیڈر کو کیوں نہیں؟ خیال رہے کہ کانگریس پارٹی کبھی بہار کو ایک مسلم وزیر اعلیٰ (مرحوم عبد الغفور) دے چکی ہے اور اشوک گہلوت نے اشارہ دے دیا ہے کہ مختلف سماجی طبقات کے مفاد کے پیشِ نظر ایک اور نائب وزیر اعلیٰ بنایا جا سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر مسلم ہوگا۔

اس کے علاوہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ اس بار کانگریس نے ٹکٹوں کی تقسیم میں فراخ دلی دکھائی ہے۔ کل 60 سیٹوں میں سے 10 مسلم امیدواروں کو دی گئی ہیں اور مجموعی طور پر پارٹی نے مثبت رویہ دکھایا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined