
علامتی تصویر
حکومت اب ہر وقت آپ کے فون میں بشکل جاسوس موجود رہے گی... جی ہاں صحیح پڑھا آپ نے... حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اب حکومت کا ایک ایسا ایپ ہر وقت آپ کے فون میں رہے گا جو آپ کی ہر سرگرمی پر نظر رکھے گا، فون پر ہونے والی باتوں کو سنے گا، آپ کا میسج پڑھے گا وغیرہ وغیرہ۔ اتنا ہی نہیں یہ ایپ موبائل میں پہلے سے انسٹال ہو کر آئے گا اور آپ اسے اپنے فون سے ہٹا بھی نہیں سکتے ہیں، یعنی ڈیلیٹ نہیں کر سکتے ہیں۔ آئندہ سال مارچ سے مارکیٹ میں آنے والے ہر نئے موبائل میں تو یہ ایپ پہلے سے ہی ہوگا، ساتھ ہی پرانے موبائل میں بھی اسے ڈال دیا جائے گا۔ اس ایپ کو نام دیا گیا ہے ’سنچار ساتھی ایپ‘... جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے، یہ ہر وقت آپ کے ’سنچار‘ یعنی مواصلات کے دوران آپ کے ساتھ رہے گا۔
Published: undefined
سب سے پہلے بتاتے ہیں کہ اس ایپ کی بابت جاری ہدایات میں مرکزی حکومت کے ڈپارٹمنٹ آف ٹیلی کمیونیکیشن یعنی ڈی او ٹی نے کیا کہا ہے۔ ہدایات میں کہا گیا ہے:
تمام نئے موبائل فون میں سنچار ساتھی ایپ پری انسٹال ہوگا یعنی پہلے سے موبائل میں ہوگا۔
جو ڈیوائس یعنی موبائل فون پہلے سے مارکیٹ میں ہیں، ان میں فون کا آپریٹنگ سسٹم یعنی او ایس سافٹ ویئر اپڈیٹ کے ذریعہ انسٹال کیا جائے گا۔
ایپ کا استعمال چوری ہوئے فون کو بلاک کرنے، آئی ایم ای آئی (ہر موبائل فون کا یونک نمبر) اصلی ہے یا نہیں، اسے یقینی بنانے اور اسپیم کال (غیر ضروری کال) کو رپورٹ کرنے میں کیا جائے گا۔
اس ایپ کے ذریعہ ہزاروں گم شدہ موبائل فون کو تلاش کیا جا چکا ہے۔
Published: undefined
سرکاری پریس ریلیز کے مطابق ہدایات پر 90 دنوں میں عمل کرنے اور 120 دنوں کے اندر اس کی رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔ حکومت نے اپنی ہدایات میں کہا ہے کہ ٹیلی کام سروس رولز کے تحت مرکزی حکومت کو بین الاقوامی موبائل آلات شناختی نمبر (آئی ایم ای آئی) والے ٹیلی کمیونیکیشن کے آلات تیار کرنے والوں کو ایسے تمام ٹیلی کمیونیکیشن کے آلات یا آئی ایم ای آئی نمبر سے متعلق ہدایات جاری کرنے کا اختیار ہے۔ کہا گیا ہے کہ حکومت کے پاس یہ بھی اختیار ہے کہ اس کے ذریعہ جاری ہدایات پر عمل کرنا تمام آلات بنانے والے یا درآمد کنندہ پر لازمی ہے۔
اب جانتے ہیں کہ سنچار ساتھی ایپ اگر آپ کے فون میں ہے تو اسے کیا کیا اختیار دیا جاتا ہے یا دیا جائے گا۔ اس ایپ کو اجازت دینے سے یہ باتیں سامنے آتی ہیں:
ایپ آپ کے فون سے کی جانے والی تمام کال کا ریکارڈ رکھے گی، آپ کی کال لاگ کو پڑھے گی۔
آپ کے فون میں آنے والے یا بھیجے جانے والے ایس ایم ایس یعنی میسجز کو پڑھے گا، خود بھی میسج بھیجے گا اور میسج دیکھے گا۔
آپ کے فون کی پہچان اور اس کا اسٹیٹس دیکھے گا۔
آپ کے فون کیمرے سے تصاویر اور ویڈیو ریکارڈ کر سکے گا اور پہلے سے لی گئی تصاویر اور ویڈیو کو دیکھ سکے گا۔
آپ کے فون کی شیئر کی گئی اسٹوریز کو پڑھ سکے گا، اس میں تبدیلی کر سکے گا، اس میں موجود ڈیٹا کو ڈیلیٹ کر سکے گا یا ان میں تبدیلی کر سکے گا۔
جب بھی آپ اپنے فون کا سافٹ ویئر اپڈیٹ کریں گے، یہ ایپ اپنی کچھ سروسز اس کے ساتھ رن کر دے گا۔
آپ کے فون میں ہونے والے وائبریشن کو کنٹرول کرے گا۔
جیسے ہی نیا فون یا پرانا فون ری اسٹارٹ یا آن کریں گے، یہ ایپ خود بہ خود چلنے لگے گا۔
آپ کے فون سے منسلک نیٹ ورک کی معلومات حاصل کرے گا۔
گوگل پلے اسٹور سے آپ نے جو بھی ایپ ڈاؤن لوڈ کیے ہیں، ان کے لائسنس چیک کرے گا۔
آپ کے فون پر آنے والے نوٹیفیکیشن کو پڑھے گا۔
آپ کے فون کو کبھی بھی سلیپ موڈ میں نہیں جانے دے گا۔
مذکورہ بالا پرمیشن کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ ان کو یوں تو سیٹنگ میں جا کر ڈس ایبل یعنی روک سکتے ہیں، لیکن اس کے بعد سنچار ساتھی ایپ آٹومیٹکلی یعنی خود ہی تمام پرمیشن کو پھر سے آن کر دے گا۔
Published: undefined
سوال صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ اس طرح کے ایپ موبائل میں ڈالنے سے نگرانی میں اضافہ ہوگا اور پرائیویسی کے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ بات اس سے کہیں آگے کی بھی ہو سکتی ہے۔ اگر کسی ایپ کو اتنی زیادہ پرمیشن ملی ہوئی ہیں جو ایک طرح سے فون یا ڈیوائس کنٹرول کرتا ہے، تو وہ آپ کے فون یا ڈیوائس میں کوئی بھی ایسی فائل امپلانٹ بھی کر سکتا ہے یعنی ڈال بھی سکتا ہے، جس کے بارے میں آپ کو علم بھی نہ ہو۔ یاد کیجیے بھیما کورے گاؤں کیس، جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اس معاملہ کے ملزم سماجی کارکنان کے لیپ ٹاپ وغیرہ میں ایجنسیوں نے کچھ فائلیں امپلانٹ کی تھیں، جن کی معلومات ان ڈیوائس کے مالکان کو تھی ہی نہیں۔ ایسا شاید ہر کسی کے ساتھ نہ بھی ہو، لیکن کون جانتا ہے کہ کب کسے اس طرح سے نشانے پر لے لیا جائے۔
Published: undefined
تعجب نہیں کہ سیاسی پارٹیاں اور لیڈران نے حکومت کے اس قدم کو آمریت قرار دیا ہے۔ وجہ صاف ہے کہ اس طرح کے ایپ کو لازمی قرار دینا مکمل طور سے نگرانی کرنے والی ریاست کی تصویر سامنے لاتی ہے۔ یوں تو حکومت اسے سیکورٹی کا نام دے رہی ہے، لیکن یہ ہر شہری کی ذاتی زندگی میں جاسوسی ہی نہیں بلکہ مکمل طور سے داخل ہو کر اس کی پرائیویسی پر قبضہ کرنا ہے۔ کسی بھی شہری کا فون یا ڈیوائس اس کی ذاتی جگہ ہے نہ کہ سرکاری، لیکن یہ ہدایات اسے حکومت کے کنٹرول میں لاتی ہیں۔
Published: undefined
اس کے علاوہ مرکزی حکومت ایک اور نیا قانون نافذ کرنے کی تیاری کر لی ہے، جس کے بعد ملک میں میسجنگ اور سوشل کمیونیکیشن ایپس کے استعمال کرنے کا طریقہ بدل جائے گا۔ ان ایپس میں واٹس ایپ، ٹیلی گرام، سگنل، اسنیپ چیٹ وغیرہ مشہور ایپس شامل ہیں۔ ٹیلی کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ (ڈی او ٹی) نے ان ایپس کو ہدایت دی ہے کہ آئندہ 90 دنوں میں وہ اپنی سروس اس طرح تیار کریں کہ ایپ تبھی چلے جب فون میں وہی سم موجود ہو جس سے اکاؤنٹ ویریفائی کیا گیا تھا۔ جیسے ہی وہ سم نکال لیا جائے، ایپ آٹومیٹک بند ہو جانا چاہیے۔ اسے سم بائنڈنگ کہتے ہیں۔
Published: undefined
حکومت کی دلیل ہے کہ سم بائنڈنگ سائبر کرائم کو بند کرنے کے لیے ضروری ہے۔ حکومت نے ہدایات جاری کی ہیں کہ تمام میسجنگ ایپس اسے یقینی بنا لیں کہ ان کی سروس صرف رجسٹرڈ سم والے ڈیوائس میں ہی کام کرے۔ اب تک واٹس ایپ، ٹیلی گرام یا سگنل جیسے ایپس پر ایک بار او ٹی پی سے لاگ ان کرنے کے بعد سم بدلنے پر بھی ایپ چلتا رہتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سہولت سیکورٹی کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے۔
Published: undefined
نئے سسٹم کے تحت اگر آپ نے سم بدلا ہے یا نکال دیا ہے، اس کے بعد یہ میسجنگ ایپ چلنے بند ہو جائیں گےاور ویب پر بھی نہیں چلیں گے۔ حکومت نے ہدایات جاری کی ہیں کہ میسجنگ ایپس کو وقفہ وقفہ سے یہ جانچنا ہوگا کہ وہ سم فون میں لگی ہے یا نہیں جس سے ایپس کو ایکٹیویٹ کیا گیا تھا۔ ایسا سسٹم تیار کیا جائے کہ جیسے ہی سم بدلا جائے یا ہٹایا جائے، ایپ فوری طور پر بند ہو جائے۔
Published: undefined
اسی طرح ان ایپس کے ویب ایکسیس کو ہر 6 گھنٹے میں خود بہ خود لاگ آؤٹ ہو جانا ضروری ہوگا اور پھر سے ویب لاگ ان کے لیے فون سے ہی کیو آر کوڈ اسکین کرنا ہوگا، وہ بھی تب جب فون میں وہی سم انسٹال ہو۔ حکومت نے اس تعلق سے میسجنگ سروس دینے والوں کے لیے 120 دنوں کے اندر اسے نافذ کرنے کی میعاد مقرر کی ہے۔
Published: undefined
اس معاملہ میں بھی حکومت کی دلیل ہے کہ ایسا آن لائن فراڈ اور جرائم کی روک تھام کے لیے کیا جا رہا ہے، لیکن میڈیا رپورٹس میں سائبر ماہرین نے اس پر خدشہ کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سم بائنڈنگ جرائم کو روکنے میں مفید ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان پہلے سے ہی اے آئی اور ویڈیو-کے وائی سی جیسی سخت ویریفیکیشن تکنیک کا استعمال کر رہا ہے، پھر بھی فراڈ کے معاملوں میں اضافہ ہو رہا ہے تو شاید مسائل کہیں اور ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined