فکر و خیالات

سیاست کی جنگ میں پِستی قابل فخر تاریخ... ذیشان احمد خان

مغلوں کے بغیر ہم جدید ہندوستان کو نہیں سمجھ سکتے، اس لیے تازہ فیصلہ میں محض ایک سیاسی سازش نظر آ رہی ہے، تاریخ ہمیشہ تاریخ ہی رہتی ہے، چاہے وہ اچھی ہو یا بری، اس سے چھیڑ چھاڑ بالکل غلط ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ ذیشان احمد خان</p></div>

تصویر بشکریہ ذیشان احمد خان

 

آج کل تاریخ (ہسٹری) کو لے کر زبردست ہلچل مچی ہوئی ہے۔ ملک میں برسراقتدار حکمراں کے ذریعہ تاریخ کو بدلنے اور اسے از سر نو لکھنے، خصوصاً مغل سلطنت کے دور کو ہدف بنانے کی ہر کوشش کی جا رہی ہے۔ تقریباً دو صدیوں تک مغل حکمرں مغرب میں سندھ بیسن کے باہری کنارے، شمال مغرب میں شمالی افغانستان، شمال میں کشمیر، مشرق میں بنگلہ دیش اور جنوبی ہند میں دکن کے پٹھار کے اوپری علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اتنے طویل عرصہ تک اتنی بڑی حکمرانی کی تاریخ کو مٹانا کہاں تک درست ہے؟

Published: undefined

گزشتہ دنوں یوپی میں بارہویں درجہ کے نصاب سے مغل دور کی تاریخ کے چیپٹرس ہٹانے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ این سی ای آر ٹی کے درجہ 12ویں کی کتاب ’تھیمس آف انڈین ہسٹری 2‘ کے نصاب ’کنگس اینڈ کرانیکلس: دی مغل کورٹ‘ کو نصاب سے ہٹایا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ’بادشاہ نامہ‘ (مغل بادشاہ شاہجہاں کی تاریخ‘، ’اکبر نامہ‘ (اکبر کی حکومت کی آفیشیل تاریخ) اور مخطوطات و عدالتوں کی تصنیف کے بارے میں جانکاری پڑھنے کے لیے دستیاب نہیں ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی درجہ گیارہویں کی کتاب ’تھیمس اِن ورلڈ ہسٹری‘ سے ’سنٹرل اسلامک لینڈس‘، ’کنفنٹریشن آف کلچرس‘ اور ’دی اسلامک ریوولیوشن‘ باب بھی ہٹنے جا رہے ہیں۔ کتاب سے ’امریکن ہیزیمونی اِن ورلڈ پالیٹکس‘ اور ’دی کولڈ وار ایرا‘ عنوان والے دو نصاب ہٹا دیئے گئے ہیں۔ گزشتہ سال این سی ای آر ٹی نے گجرات فسادات، مغل دربار، ایمرجنسی، سرد جنگ، نکسل تحریک کے کچھ حصوں کو ہٹایا تھا۔

Published: undefined

آئی اے این ایس کی ایک رپورٹ کے مطابق این سی ای آر ٹی نے مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اُس وقت کی حکومت کے ذریعہ آر ایس ایس پر لگائی گئی مختصر پابندی سے متعلق درجہ 12 کی پالیٹیکل سائنس کی کتابوں سے کچھ پیراگراف ہٹا دیئے ہیں۔ ساتھ ہی ہندو-مسلم اتحاد کے لیے گاندھی کی کھوج پر پیراگراف ہندو شدت پسندوں کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 10ویں درجہ کی کتاب ڈیموکریٹک پالیٹکس-2 سے جمہوریت اور تنوع، مقبول جنگ اور تحریک، جمہوریت کے چیلنجز جیسے اسباق بھی ہٹا دیئے گئے ہیں۔

Published: undefined

این سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر دنیش پرساد سکلانی نے اس پورے معاملے میں اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ مغلوں کی تاریخ کے حصوں کو ہٹایا نہیں گیا ہے، یہ جھوٹ ہے۔ گزشتہ سال کووڈ کے وقت بچوں پر زیادہ نصاب کے بوجھ کو لے کر مواد کم کرنے کی بات ہو رہی تھی۔ جس کے بعد غیر ضروری بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اس پر بحث غیر ضرور ہے، جو نہیں جانتے وہ کتابوں کی جانچ کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ سچ ہے کہ این سی ای آر ٹی سبھی درجات کے لیے نئی کتابیں تیار کر رہا ہے، نیا نصاب این ای پی پر مبنی ہوگا۔

Published: undefined

مغلوں کی تاریخ پر پیدا بحث کے درمیان لکھنؤ یونیورسٹی کے صدر شعبہ تاریخ و سیاسیات پروفیسر روی کانت کے مطابق تاریخ کو تبدیل کرنا ٹھیک نہیں ہے، کیونکہ جو راجہ تھے اس میں راجاؤں کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔ مغل تاریخ نے لوگوں کو بڑھایا ہے۔ اگر وہی ہٹ جائے گا تو یہ مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہوگا۔ ایسے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ دکھانا کیا چاہتے ہیں اور بدلنا کیا چاہتے ہیں۔

Published: undefined

میڈیا میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ایل ایس کالج مظفر پور میں تاریخ کے استاذ پروفیسر اشوک انسومن نے اسے بے کار فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا فوراً تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ مغل حکومتوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایک سیاسی حکمراں ہونے کے علاوہ یہ ایک ثقافتی وراثت ہے۔ ان کے مطابق تاریخ کو ٹکڑوں میں نہیں پڑھایا جا سکتا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ تہذیبوں کو مختلف مراحل کے ساتھ مستقل انداز میں پڑھایا جا رہا ہے۔ انھوں نے دلیل دی کہ مجھے دو نصابوں کو ہٹا کر اس کے نصاب ترمیم کرنے کی کوئی جائز وجہ نظر نہیں آتی ہے۔

Published: undefined

مشہور و معروف مورخ پروفیسر عرفان حبیب اس تعلق سے اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندوستانی تہذیب کے ایک بڑے حصے کو آپ تاریخ سے ہی نکال دیں گے۔ آپ یہ چیز بھول جاتے ہیں کہ مغل ضرور باہر سے آئے تھے، لیکن وہ تو یہیں آباد ہو گئے۔ یہیں کے باشندے ہو گئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ آپ کیسے 200 سال کی تاریخ کو خارج کر سکتے ہیں۔ مغلوں کو باہر کا بتائے جانے پر مایوسی ظاہر کرتے ہوئے عرفان حبیب نے کہا کہ انھوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا کہ جس سے کہا جائے کہ انھوں نے ہندوستان کو لوٹا ہو اور باہر دولت بھیجی ہو۔ باہر تو ان کا کوئی تھا ہی نہیں، جو بھی تھا ان کا سب ہندوستان میں تھا۔ وہ جو خرچ کرتے تھے ہندوستان میں کرتے تھے۔ تو تاریخ کو مت مٹائیے، مغلوں کی تاریخ دو لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتی۔

Published: undefined

ہندوستان کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں حکومتیں اپنے نظریات کے مطابق تاریخی ادب کو متاثر کرتی آئی ہے۔ جس طرح سے این سی ای آر ٹی کی کتابوں سے دھیرے دھیرے مغل حکومت پر مبنی دور کی تاریخ ہٹائی جا رہی ہے، اس میں کہیں نہ کہیں ایک خاص نظریہ کا اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔

Published: undefined

مغل دور حکومت ہندوستان کی ترقی میں ایک اہم مدت کار تھی، جو برطانوی نوآبادیات کی طرف رواں دواں تھی اور مغل اثر اب بھی ہندوستانی تہذیب میں موجود ہے۔ مغل حکومت کے دوران فن رقص، ہنوستانی شاستریہ موسیقی سمیت ہندی و اردو سمیت کئی زبانوں کی تیزی سے ترقی ہوئی۔ مغلوں کی حکومت کا دور ہندوستان کے لیے قابل فخر دور رہا تھا۔ دنیا کی جی ڈی پی میں ہندوستان کی شراکت داری 25 فیصد سے زیادہ تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ہم خود کفیل تھے اور ہندوستانی برآمدات دنیا بھر میں ایک الگ مقام رکھتا تھا۔ آج جب ہم اپنے مضبوط مستقبل کا تصور کر رہے ہیں تو اس باوقار تاریخ کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کا عزم لینا ہوگا۔ 1947 میں جب ہندوستان آزاد ہوا تو ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے مغل حاکم شاہجہاں کے ذریعہ تیار لال قلعہ میں اپنی تقریر دی۔ نہرو کے بعد ملک کے سبھی وزرائے اعظم نے لال قلعہ کی تاریخی دیواروں سے عوام کو خطاب کیا ہے۔ درحقیقت مغلوں نے تاج محل، دہلی کی جامع مسجد، ہمایوں کا مقبرہ سمیت ہندوستان کی کئی مشہور یادگاروں کی تعمیر کی۔ انھوں نے بریانی اور روز مرہ کے کئی مسالوں کو مشہور بنانے میں مدد کی۔ روایتی لباس جیسے مردوں کا کرتا پاجامہ اور خواتین کی شلوار قمیص مغل حکومت میں سب سے زیادہ استعمال ہوئی۔

Published: undefined

اگر مغل دور کی تاریخ کو ہٹا دیا جائے تو مہارانا پرتاپ کو کس طرح دنیا میں پیش کریں گے؟ چھترپتی شیواجی کا کیا تاریخ بتائیں گے؟ کس طرح بتائیں کہ یومِ آزادی پر یہ ترنگا پرچم جو ہم لال قلعہ میں لہراتے ہیں وہ مغلوں کی دیا ہوا ہے؟ کس طرح بتائیں گے کہ 1857 کے انقلاب کی قیادت آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے کی تھی؟ کیا تاریخ بدل جائے گی؟ تاریخ نے کئی شکل اختیار کی ہیں، آج کے منظرنامہ پر رکھ کر سابقہ تاریخ کو پڑھو گے تو یقیناً ہی وہ ناقابل قبول ہوگا، لیکن قبول کرنا پڑے گا۔

Published: undefined

غور طلب ہے کہ جب رائٹ وِنگ سوچ والی پارٹیوں کی حکومت بنی ہے، انھوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ مغل حاکموں سے جڑی تاریخ کو دوسری شکل میں لکھا جانا چاہیے۔ اسے نئی طرح سے ہٹانے کی کوشش بی جے پی کی حکومت میں ہوئی اور اس کے بعد 99-1998 کے دوران جو حکومت آئی تھی اس وقت بھی ایسی کوششیں کی گئی تھیں، لیکن اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں رہے تھے۔

Published: undefined

سیاست اور ووٹوں کی لڑائی کے درمیان فکر اس بات کی ہے کہ آنے والی نسلوں کو کئی ایسی تاریخ کے بارے میں جانکاری نہیں ہوگی جس کو جاننا لازمی ہے۔ مغلوں کے بغیر ہم جدید ہندوستان کو نہیں سمجھ سکتے، اس لیے اس فیصلہ میں محض ایک سیاسی سازش نظر آ رہی ہے۔ تاریخ ہمیشہ تاریخ ہی رہتی ہے، چاہے وہ اچھی ہو یا بری، اس سے چھیڑ چھاڑ بالکل غلط ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined