فکر و خیالات

’24، اکبر روڈ‘، کانگریس کے ہر جشن اور ہر مایوسی کا خاموش گواہ... سنیل گتاڈے – ونکٹیش کیسری

15 جنوری 2025 کو کانگریس کا ہیڈکوارٹر ’24 اکبر روڈ‘ سے بدل کر نئی عمارت میں چلا جائے گا، لیکن اکبر روڈ کا بنگلہ نمبر 24 اندرا گاندھی کے وقت سے لے کر موجودہ وقت تک کا خاموش گواہ اور دستاویز بنا رہے گا۔

<div class="paragraphs"><p>کانگریس ہیڈکوارٹر ’24، اکبر روڈ‘، تصویر GettyImages</p></div>

کانگریس ہیڈکوارٹر ’24، اکبر روڈ‘، تصویر GettyImages

 

24، اکبر روڈ، نئی دہلی... تقریباً 4 دہائیوں تک ملک کی سب سے قدیم پارٹی کا ہیڈکوارٹر رہا یہ پتہ اب ماضی ہونے والا ہے۔ لوٹینس بنگلہ زون میں واقع یہ عمارت اپنے بڑے لان اور درمیان میں بنے کمروں میں بے شمار یادیں سمیٹے ہوئی ہے۔ یہ گواہ رہی ہے کانگریس کے اتھل پتھل والے سفر کی، جس میں شکست کی مایوسی سے لے کر جیت کے جشن کی گونج تک شامل ہے۔

Published: undefined

رواں ماہ 15 جنوری 2025 کو کانگریس کا ہیڈکوارٹر یہاں سے بدل کر نئی عمارت میں چلا جائے گا، لیکن اکبر روڈ کا بنگلہ نمبر 24 اندرا گاندھی کے وقت سے لے کر موجودہ وقت تک کا خاموش گواہ اور دستاویز بنا رہے گا۔ یہ جگہ ہمیشہ گلزار رہی ہے۔ تقریباً نصف صدی تک کانگریس کی سیاست کا مرکز رہا یہ بنگلہ ملک کی باوقار سب سے قدیم سیاسی پارٹی میں آئے کئی تلخ و شیریں لمحات کا گواہ رہا ہے۔ ایسے لمحات جن سے پارٹی بنی بھی، اور ٹوٹی بھی۔ اسی عمارت سے پارٹی نے کچھ شاندار ریکارڈس بنائے، تو کچھ ایسی یادیں بھی ہیں جنھیں اچھا نہیں کہا جا سکتا۔

Published: undefined

وشوناتھ پرتاپ سنگھ (وی پی سنگھ) کی بغاوت، بابری مسجد کا انہدام، کانگریس صدر عہدہ سے سیتارام کیسری کو مجلس عاملہ کے ذریعہ ڈرامائی طریقے سے ہٹایا جانا اور پھر سونیا گاندھی کو کانگریس کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے منانے کے لیے اسی عمارت سے کانگریس لیڈران کا 10 جن پتھ کی طرف رخت سفر باندھنا... ایسے تمام لمحات کا گواہ یہ پتہ ہے۔

Published: undefined

اس عمارت نے پنجاب میں آپریشن بلو اسٹار پر کانگریس کی داخلی بحث کو دیکھا اور سنا، تو اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کے قتل کے بعد غم میں ڈوبتی ہوئی پارٹی کو بھی دیکھا۔ ملک کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے بدل دینے والے منڈل اور ہندوتوادی طاقتوں کو ابھرتے ہوئے بھی اس عمارت نے دیکھا۔ اسی پتہ پر ہوئی گہما گہمی والی میٹنگ کے بعد کانگریس نے یونائٹیڈ فرنٹ حکومت کو باہر سے حمایت دینے کا فیصلہ لیا، تو 2004 میں ایک جیسے نظریات والی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کا فیصلہ بھی یہیں ہوا، جو آنجہانی منموہن سنگھ کی قیادت میں 2014 تک چلا۔

Published: undefined

’24، اکبر روڈ‘ نے پارٹی میں ٹوٹ کے کئی مواقع بھی دیکھے ہیں۔ شرد پوار، طارق انور اور آنجہانی پی اے سنگما کا پارٹی سے الگ ہو کر این سی پی بننے کی کہانی کی گواہ بھی یہ عمارت رہی ہے۔ یہ کانگریس کے لیے ایک جھٹکا تھا اور اشارہ بھی کہ پارٹی کس طرح طاقتور لیڈروں کو ساتھ لے کر چلنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ اس پرانی پارٹی کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سونیا گاندھی نے جو ریکارڈ قائم کیا، اس کا تانا بانا بھی اسی عمارت میں بُنا گیا تھا۔ پارٹی کی ذمہ داری سنبھالنے سے متعلق راہل گاندھی کا دور بھلے ہی چھوٹا رہا، لیکن یہ عمارت گواہ رہی ہے کہ کس طرح ماں بیٹے کا اثر کانگریس پارٹی پر چھایا رہا ہے۔

Published: undefined

دراصل ’24، اکبر روڈ‘ نے کانگریس کے عروج کو بھی دیکھا ہے اور اس کے زوال کو بھی۔ یہ عمارت سیاسی بیابان کے ان دو قطبوں کی گواہ ہے جس میں طلوع کا خوش کن احساس بھی ہے، اور پھر غروب ہونے کی مایوسی بھی۔ تصور کیجیے کہ اگر گزشتہ تقریباً نصف صدی سے ملک کا اہم سیاسی پتہ رہی اس عمارت کی تاریخ پر ’لائٹ اینڈ شو‘ بنایا جائے تو پلاٹ، ذیلی پلاٹ، نشیب و فراز، جھٹکے اور اتھل پتھل، فتح و شکست، باغیوں و وفاداروں اور نہ جانے کیسے کیسے دلچسپ واقعات شامل ہوں گے۔

Published: undefined

اُس دور کے صحافیوں کو آج بھی یاد ہے جب اُس وقت کے کانگریس صدر سیتارام کیسری نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ انھوں نے پی وی نرسمہا راؤ کا ٹکٹ کاٹ دیا ہے، کیونکہ وہ بابری مسجد کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے تھے۔ یہ اعلان اتنا بڑا تھا کہ اس پریس کانفرنس کو اچانک ہی درمیان میں روک دینا پڑا تھا۔

Published: undefined

ان سب واقعات سے علیحدہ ’24، اکبر روڈ‘ ایک ایسا پبلک پلیس بھی رہا جو سبھی کارکنان کے لیے کھلا تھا، چاہے وہ بڑے ہوں یا چھوٹے، اور جن میں پارٹی کی اصلی طاقت ہے۔ کشمیر سے کنیاکماری اور منی پور سے دوارکا تک کے کارکنان اور لیڈران اسی عمارت میں زندہ و جاوید جمہوریت کے گواہ رہے ہیں۔ گزرتے سالوں کے ساتھ تبدیلیاں بھی ہوئی ہیں۔ جہاں گزرے وقت میں مجلس عاملہ کی میٹنگیں روایتی طریقے سے زمین پر بیٹھ کر ہوا کرتی تھیں، ان کی جگہ اب میز و کرسی لے چکی ہیں۔ 90 کی دہائی کے وسط میں اسی پتہ پر صدر دروازے کے پاس ایک بڑا سا باکس رکھا جاتا تھا جسے ’ڈونیشن باکس‘ کہتے تھے۔ اس میں لوگ پارٹی کے لیے چندہ ڈالتے تھے اور بے شمار بڑے بڑے لیڈران کو اس میں پیسے ڈالتے دیکھا گیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سیلفی کا دور شروع نہیں ہوا تھا۔

Published: undefined

یہ عمارت خاص طور سے آنجہانی آسکر فرنانڈیز کو نہیں فراموش کر سکتی، جو کانگریس جنرل سکریٹری رہتے ہوئے رات 12 بجے کے بعد کارکنان سے ملاقات کرتے تھے اور ’برادر آسکر‘ سے ملنے کے لیے لوگوں کی بھیڑ جمع رہتی تھی۔ کارکنان کے درمیان وہ اسی نام سے مشہور تھے۔ اسی طرح طویل مدت تک پارٹی کے خزانچی رہے موتی لال ووہرا بھی دن میں یہاں موجود رہتے تھے اور کارکنان سے ملاقات کرتے تھے۔ نرسمہا راؤ کے دور میں جناردن پجاری نے تو ’24، اکبر روڈ‘ کو جیسے اپنا گھر ہی بنا لیا تھا۔

Published: undefined

پرانے وقت کے لوگوں کو آج بھی یاد ہے کہ وسنت دادا پاٹل اور جی کے موپنار جیسے مشہور لیڈران کس طرح 24، اکبر روڈ پر بیٹھ کر پارٹی کی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے تھے۔ راجیو گاندھی کے وقت میں پارٹی کے کارگزار صدر کملاپتی ترپاٹھی اور نائب صدر ارجن سنگھ کے درمیان کی رسہ کشی بھی یہاں بحث کا موضوع رہا کرتا تھا۔ یوں تو پارٹی کے ترجمانوں اور میڈیا ڈپارٹمنٹس کے سربراہان کے طور پر پرنب مکھرجی، شیوراج پاٹل، ویرپا موئلی یا جناردن دویدی جیسے سرکردہ لیڈران کے نام یادوں میں ہوں، لیکن وی این گاڈگل جس طرح کے بیانات دیتے تھے، وہ سرخیاں بنتے تھے۔ اٹل بہاری واجپئی کی پہلی حکومت پر وی این گاڈگل کے ذریعہ ’13 دن کا چمتکار‘ جیسا جملہ آج بھی لوگوں کو یاد ہے۔ ایک کٹر کانگریسی اور مجاہدین آزادی کی فیملی کے پس منظر کے سبب وہ ہمیشہ بہت ہی چُٹیلے انداز میں سیاسی مخالفین پر طنز کرتے تھے۔

Published: undefined

کانگریس پارٹی نے جنوری 1978 میں 24، اکبر روڈ کو اپنا پتہ بنایا، جب اندرا گاندھی اپنے مشکل سیاسی دور سے گزر رہی تھیں اور پارٹی 2 حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ تب کانگریس-آئی (اس وقت اسی نام سے پارٹی جانی جاتی تھی) نے اسے اپنا ہیڈکوارٹر بنایا اور یہ جگہ پارٹی کے لیے بہت خوش قسمت ثابت ہوئی۔ 2 سال کے اندر ہی اندرا گاندھی وزیر اعظم بن کر اقتدار میں واپس آ گئیں۔

Published: undefined

24، اکبر روڈ نے ہی کانگریس کی طاقت کا عروج بھی دیکھا، جب 31 اکتوبر 1984 کو اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہوئے انتخابات میں راجیو گاندھی 400 سے زیادہ سیٹیں جیت کر وزیر اعظم بنے۔ یہ آج بھی ایک ریکارڈ ہے۔ لیکن اسی عمارت نے مایوسی کا وہ دور بھی دیکھا جب مئی 2014 کے پارلیمانی انتخاب میں پارٹی نہ صرف اقتدار سے باہر ہوئی بلکہ ملک کو آزادی دلانے والی سب سے پرانی پارٹی اپنی سب سے خراب کارکردگی کے ساتھ محض 44 سیٹوں پر سمٹ گئی۔

Published: undefined

دراصل 80 کی دہائی کانگریس پارٹی کا سنہرا دور رہا۔ کہتے ہیں کہ ایوریسٹ کی چوٹی پر کوئی بہت دیر تک نہیں رہ سکتا، کانگریس کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ راجیو گاندھی کی مدت کار آخری ایسی مدت کار رہی جب پارٹی نے تنہا اپنی طاقت پر اقتدار حاصل کی ہو۔ اور اب سب کی نگاہیں رہیں گی کوٹلی روڈ واقع اندرا بھون پر جہاں پارٹی اپنا نیا ہیڈکوارٹر بنا رہی ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ نئی عمارت اور نیا پتہ کانگریس کی قسمت میں کیا بدلاؤ لا سکتا ہے، کیونکہ پارٹی لیڈر جائز ایشوز اٹھا رہے ہیں۔ کہتے ہیں نہ کہ ’جب سردی آتی ہے، تو وسنت بہت دور نہیں ہوتا‘۔

(سنیل گتاڈے ’پی ٹی آئی، دہلی‘ میں ایسو سی ایٹ ایڈیٹر رہے ہیں اور ونکٹیش کیسری ‘ایشین ایج‘ میں اسسٹنٹ ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ دونوں صحافیوں نے طویل مدت تک کانگریس، پارلیمنٹ اور ملک کی سیاست پر رپورٹنگ کی ہے۔)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined