علامتی تصویر / اے آئی
سال 2024 کا اختتام تشویش ناک منظرنامہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بمباری اور ہلاکتوں و تباہی کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بات بھی توجہ میں رہے کہ اسرائیل کے حملے غزہ اور اس کے آس پاس سے ہوتے ہوئے اب شام تک پھیل رہے ہیں۔ تباہی و بربادی اپنے عروج پر ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک واضح توسیع پسندانہ منصوبہ سامنے آ رہا ہے۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ یہ کہاں اور کیسے ختم ہوگا؟ اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ یہ کب ختم ہوگا؟ سینکڑوں اور ہزاروں فلسطینی، لبنانی و شامی عوام پہلے ہی تباہ و برباد ہو چکے ہیں اور کئی دیگر متاثر ہیں۔ فی الحال خونی تباہی رکنے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ خون خرابہ پھیلتا ہی جا رہا ہے۔
Published: undefined
مبصرین کا کہنا ہے کہ شام کی صورت حال پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ اسرائیل اور اس کے اتحادی تیزی کے ساتھ توسیع پسندانہ حکمت عملیوں کے ساتھ ان کے علاقے میں دراندازی کر رہے ہیں۔ مجھے نوم چومسکی کی وہ بات یاد آ رہی ہے جو انھوں نے دو دہائی قبل اپنے نئی دہلی دورہ میں مجھے دیے گئے ایک انٹرویو میں کہی تھی۔ ان کی کہی گئی باتیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ اس انٹرویو کے دوران جب میں نے چومسکی سے سوال کیا کہ وہ بدلتے ہوئے عالمی نظام میں کس طرح کی تبدیلیوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں، یا کیا اندیشہ ظاہر کر سکتے ہیں؟ جواب میں انھوں نے تفصیل سے بتایا کہ سپرپاور امریکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے کس طرح کی تباہی مچا سکتا ہے۔
Published: undefined
اس انٹرویو میں چومسکی نے کہا تھا کہ: ’’دہشت گردی کا خطرہ واحد خندق نہیں ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں، اس سے بھی بڑا خطرہ اسلحوں کی دوڑ سے بھی ایک بڑا خطرہ لاحق ہے… ’دوڑ‘ اصطلاح نامناسب ہے کیونکہ فی الحال امریکہ تنہا مقابلہ کر رہا ہے۔ اس کا ہدف ’مکمل اسپیکٹرم غلبہ‘ حاصل کرنا ہے۔ یہ منصوبے کچھ سالوں سے سرکاری دستاویزات میں موجود ہیں اور مذکورہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے۔ بش حکومت کے پہلے مہینوں میں اور پھر 11 ستمبر کے بعد ان جرائم کی وجہ سے پیدا شدہ خوف و دہشت کا استعمال کر اسے مزید وسعت دی گئی۔ ہر جگہ حملے کو ’دفاع‘ ماننا روایتی ہے اور یہ معاملہ کوئی مستثنیٰ نہیں ہے۔ خلا کی عسکریت پسندی کے منصوبے کو 'بیلسٹک میزائل ڈیفنس‘ (بی ایم ڈی) کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ اور یہ اچھی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے کہ بی ایم ڈی تکنیکی طور پر ممکن بھی ہو تو سیٹلائٹ کمیونیکیشن پر منحصر ہونا چاہیے۔ اور سیٹلائٹ کو تباہ کرنا میزائلوں کو مار گرانے سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ یہی ایک سبب ہے کہ امریکہ کو مکمل اسپیکٹرم غلبہ چاہیے۔ خلا پر اتنا سخت کنٹرول کہ غریب آدمی کے اسلحے بھی کسی مخالف کے لیے دستیاب نہ ہوں۔ خلا کی عسکریت پسندی کا ہدف بہت آگے تک پھیلا ہوا ہے۔ کلنٹن حکومت کے دوران کی اشاعتیں بنیادی ہدف کو وضاحت کے ساتھ ظاہر کرتی ہیں۔ مثلاً ’فوجی مہموں کے خلائی جہت پر غلبہ۔ امریکی مفادات اور سرمایہ کاری کی حفاظت کرنا۔‘ افواج کی ضرورت ’براعظم امریکہ کے مغرب کی طرف وسعت کے دوران‘ تھی! بلاشبہ، مقامی آبادی کے خلاف اپنے دفاع میں!‘‘
Published: undefined
آئیے اب ذرا اپنے ملک پر نظر ڈالتے ہیں۔ اگر کوئی ہمارے ملک پر توجہ مرکوز کرے تو فرقہ وارانہ صورتحال صرف تشویش ناک نہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک موجودہ جج کے حالیہ بیان کو فکر انگیز قرار دیا جا سکتا ہے۔ جی ہاں، فکر انگیز! واضح طور پر فرقہ وارانہ اور ہندوتوا کے جذبہ سے بھرپور۔ ملک میں اقلیتی مسلم طبقہ کے خلاف اس طرح کے وسیع تعصب اور فرقہ وارانہ رویہ کے اثرات کا تصور کوئی بھی کر سکتا ہے۔
ان حالیہ برسوں میں بدسلوکی کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر غیر مہذب تبصروں میں تیزی آئی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں دائیں بازو کے کئی اراکین پارلیمنٹ نے انتہائی ناشائستہ زبان استعمال کی ہیں۔ پھر ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی تمام باتوں سے بچ کر نکل گئے ہیں۔ حتیٰ کہ نفرت پھیلانے والی تقریریں کرنے والے، یکے بعد دیگرے متنازعہ بیانات دینے والے موجودہ سیاسی حکمراں بھی بے خوف گھوم رہے ہیں۔
Published: undefined
یہ کہنا قطعی غلط نہیں ہوگا کہ مسلم طبقہ اور ان کے عقیدے کو ہدف بنانے کے لیے ایک خاص پیٹرن موجود ہے۔ پروپیگنڈا پھیلانے کا عمل پوری طرح جاری ہے۔ بہت سے پلیٹ فارمز اور فورمز سے طرح طرح کے بہانے بنائے جا رہے ہیں۔ ملک کے مسلمانوں کے بارے میں منفی باتیں اس حد تک پھیلائی گئی ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے مسلمانوں کو انتہائی منظم طریقے سے نشانہ بنانے کے لیے دائیں بازو کی ایک منصوبہ بند حکمت عملی موجود ہے۔ ان پر ہر ممکن الزامات عائد کرو، انہیں اقتصادی، مالی اور سماجی کشیدگی میں ڈال دو، ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بناؤ، ان میں خوف پیدا کرو، ان کے بارے میں خرافات اور غلط فہمیاں پھیلاؤ... یہ سب کچھ بہت عام ہو گیا ہے۔ بھولے بھالے معصوم لوگوں کو مسلم مخالفت کی یہ خوراک لگاتار دی جاتی ہے اور سیاسی مافیا نفرت و رنجش کے مہلک امتزاج پر پھلتا پھلوتا رہتا ہے۔ جیسے جیسے مسلم طبقہ کے خلاف یہ زہریلا اور تعصب پر مبنی پروپیگنڈہ بے قابو ہوتا جاتا ہے، زمینی حقائق مزید دھندلی اور فکر انگیز ہوتے جاتے ہیں۔
Published: undefined
جو حالات اس وقت دیکھنے کو مل رہے ہیں، ایسے میں مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کے کچھ اشعار کے ساتھ آپ کو چھوڑتی ہوں۔ یہ اشعار ساحر کی نظم ’خون پھر خون ہے‘ سے لی گئی ہیں:
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے
فرق انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے
تیغ بیداد پہ یا لاشۂ بسمل پہ جمے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمیں گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑاتی رہیں ظلمت کی نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ
ظلم کی قسمت ناکارہ و رسوا سے کہو
جبر کی حکمت پرکار کے ایما سے کہو
محمل مجلس اقوام کی لیلیٰ سے کہو
خون دیوانہ ہے دامن پہ لپک سکتا ہے
شعلۂ تند ہے خرمن پہ لپک سکتا ہے
تم نے جس خون کو مقتل میں دبانا چاہا
آج وہ کوچہ و بازار میں آ نکلا ہے
کہیں شعلہ کہیں نعرہ کہیں پتھر بن کر
خون چلتا ہے تو رکتا نہیں سنگینوں سے
سر اٹھاتا ہے تو دبتا نہیں آئینوں سے
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹاؤ تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھاؤ تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined