بالی ووڈ کی دنیا میں تنوجہ کا شمار ان اداکاراؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی بے باک اور منفرد اداکاری کے ذریعے خواتین کی روایتی پیشکش کو نئی جہت بخشی۔ انہوں نے اپنی زندگی اور فن دونوں میں رائج روایتوں کو چیلنج کیا اور اپنے الگ انداز سے ناظرین کے دلوں میں جگہ بنائی۔
تنوجہ 23 ستمبر 1943 کو ممبئی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کمارسین سمرتھ شاعر اور فلم ساز تھے جبکہ والدہ شوبھنا سمرتھ ایک مقبول اداکارہ تھیں۔ گھرانے میں فلمی ماحول ہونے کے باعث تنوجہ کا رجحان ابتدا ہی سے اداکاری کی طرف رہا۔ بطور چائلڈ آرٹسٹ انہوں نے 1950 میں اپنی والدہ کے ہوم پروڈکشن فلم ’ہماری بیٹی‘ سے فنی کیریئر کا آغاز کیا۔ یہی وہ فلم تھی جس سے ان کی بڑی بہن نوتن نے بھی اداکارہ کے طور پر سفر شروع کیا۔
Published: undefined
تعلیم کے دوران تنوجہ نے صرف ہندوستان تک خود کو محدود نہیں رکھا بلکہ محض 13 برس کی عمر میں سوئٹزرلینڈ گئیں جہاں انہوں نے انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبانوں پر عبور حاصل کیا۔ ان کی والدہ نے انہیں باقاعدہ اداکارہ کے طور پر متعارف کرانے کے لیے 1958 میں فلم ’چھبیلی‘ پروڈیوس کی، جو تنوجہ کی پہلی ہیروئن کے طور پر فلم تھی۔
سال 1961 میں ریلیز ہونے والی فلم ’ہماری یاد آئے گی‘ نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اس فلم میں تنوجہ کی اداکاری نے یہ احساس دلایا کہ گیتا بالی کے بعد ان کی کمی کو پورا کرنے والی ایک باصلاحیت اداکارہ مل گئی ہے۔ تنوجہ نے نہ صرف کرداروں میں نیا پن پیدا کیا بلکہ اپنی بے جھجک گفتگو اور اندازِ حیات کے باعث بھی مشہور رہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے فلم ساز گرودت سے مذاق میں کہا تھا، ’’اے گرو، تو جب مر جائے گا اپنی لائبریری میرے نام لکھ جانا۔‘‘ ان کا یہ انداز ان کی آزاد طبعیت کا آئینہ دار تھا۔
Published: undefined
ہندی فلموں کے ساتھ ساتھ تنوجہ نے بنگالی فلموں میں بھی اپنی انفرادیت قائم کی۔ ان کی جوڑی اتم کمار اور سومتر چٹرجی کے ساتھ بے حد پسند کی گئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے گجراتی، مراٹھی، ملیالم اور پنجابی فلموں میں بھی نمایاں کام کیا۔ تنوجہ نے 1973 میں شومو مکھرجی سے شادی کی۔ ان کی دو بیٹیاں کاجول اور تنیشا مکھرجی ہیں۔ کاجول نے بالی ووڈ میں ایک بڑا مقام حاصل کیا جبکہ تنیشا نے بھی فلموں میں قسمت آزمائی مگر وہ اپنی بہن جیسی کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔
تنوجہ کے فلمی کیریئر میں ان کی جوڑی راجیش کھنہ کے ساتھ بہت مقبول ہوئی۔ 1967 میں فلم ’پیسہ یا پیار‘ کے لیے انہیں بہترین اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ’نئی عمر کی نئی فصل‘، ’بھوت بنگلہ‘، ’بہاریں پھر بھی آئیں گی‘، ’جویل تھیف‘، ’دو دونی چار‘، ’جینے کی راہ‘، ’گستاخی معاف‘، ’پوتر پاپی‘، ’بچپن’، ’ہاتھی میرے ساتھی‘، ’دور کا راہی‘، ’میرے جیون ساتھی‘، ’دو چور‘، ’ایک بار مسکرا دو‘، ’انوبھو‘، ’امیر غریب‘، ’امتحان‘، ’پریم روگ‘، ’بے خودی‘، ’ساتھیا‘ اور ’خاکی‘ جیسی فلموں میں یادگار کردار ادا کیے۔
Published: undefined
تنوجہ نے اپنے وقت میں اداکاراؤں کے لیے بنے بنائے سانچوں کو توڑ کر دکھایا۔ وہ نہ صرف اسکرین پر مضبوط، بے باک اور آزاد خیال کرداروں کے ذریعے ابھریں بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی انہی اصولوں پر چلتی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں آج بھی ایک ایسی فنکارہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے سنیما میں خواتین کو محض روایتی اور محدود کرداروں سے آزاد کر کے ایک نیا مقام دلایا۔
تنوجہ کا سفر یہ پیغام دیتا ہے کہ اصل کامیابی اپنی انفرادیت پر قائم رہنے میں ہے۔ وہ صرف ایک اداکارہ نہیں بلکہ ایک عہد کی نمائندہ شخصیت تھیں جنہوں نے اپنے فن کے ذریعے آنے والی نسلوں کو متاثر کیا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined