بالی ووڈ

نورجہاں: صرف گلوکارہ نہیں، برصغیر کی موسیقی کی روح

نورجہاں محض ایک آواز نہیں بلکہ برصغیر کی موسیقی کی روح تھیں۔ چھ دہائیوں پر محیط کیریئر، ہزاروں گیت، پہلی خاتون فلم ہدایت کار اور ’ملکۂ ترنم‘ کا اعزاز، ان کی فنی وراثت آج بھی زندہ ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر یو این آئی</p></div>

تصویر یو این آئی

 

برصغیر کی فلمی اور موسیقی تاریخ میں نور جہاں ایک ایسا نام ہے جو محض فنکارہ ہونے سے کہیں بڑھ کر ایک عہد کی علامت بن چکا ہے۔ وہ نہ صرف ایک عظیم گلوکارہ اور اداکارہ تھیں بلکہ موسیقی کی وہ روح تھیں جس نے برطانوی ہند سے لے کر پاکستان تک نسلوں کے ذوق کو تشکیل دیا۔ کلاسیکی موسیقی، غزل، ٹھمری، قومی نغمے اور فلمی گیت، ہر صنف میں ان کی آواز نے اپنی الگ پہچان قائم کی۔

نورجہاں نے 1951 میں فلم چن وے کے ذریعے بطور ہدایت کار اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور یوں پاکستان کی پہلی خاتون فلم ڈائریکٹر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں انہیں ’ملکۂ ترنم‘ کا خطاب دیا گیا۔ ان کا فلمی سفر چھ دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط رہا، جس میں انہوں نے فن اور پیشہ ورانہ وقار کی نئی مثالیں قائم کیں۔

Published: undefined

وہ معروف گلوکار احمد رشدی کے ساتھ پاکستانی سنیما کی تاریخ میں سب سے زیادہ فلمی گیت گانے والوں میں شمار ہوتی ہیں۔ نورجہاں نے اردو، پنجابی اور سندھی سمیت مختلف زبانوں میں تقریباً دس ہزار گانے ریکارڈ کیے۔ نصف صدی سے زائد عرصے کے دوران انہوں نے ایک ہزار 148 پاکستانی فلموں کے لیے مجموعی طور پر دو ہزار 422 گیت گائے، یہ اعداد و شمار ان کی محنت، وسعتِ فن اور تخلیقی قوت کے گواہ ہیں۔

21 ستمبر 1926 کو پنجاب کے قصبے قصور میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والی نورجہاں کا اصل نام اللہ وسائی تھا۔ ان کے والد امداد علی اور والدہ فتح بی بی تھیٹر سے وابستہ تھے، اسی لیے گھر کا ماحول فنی تھا۔ روایت ہے کہ پیدائش کے وقت ان کی خالہ نے بچے کے رونے میں موسیقی محسوس کی اور وقت نے ثابت کیا کہ یہ محض ایک جملہ نہیں بلکہ ایک پیش گوئی تھی۔ نورجہاں نے چھ برس کی عمر میں گانا شروع کیا اور موسیقی سے ان کا رشتہ زندگی بھر قائم رہا۔

Published: undefined

ابتدائی طور پر انہوں نے استاد غلام محمد سے اور بعد ازاں کجّن بائی سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ وہ ہندستانی کلاسیکی موسیقی کے پٹیالہ گھرانے کے انداز سے آشنا ہوئیں، جس میں ٹھمری، دھرپد اور خیال شامل ہیں۔ نو برس کی عمر میں پنجابی موسیقار غلام احمد چشتی کی توجہ کا مرکز بنیں، جنہوں نے انہیں لاہور کے اسٹیج سے متعارف کرایا۔

1930 میں انہیں خاموش فلم ہند کے تارے میں کام کرنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں خاندان کلکتہ منتقل ہوا جہاں نورجہاں نے میوزیکل تھیٹر میں حصہ لیا اور فلمی دنیا میں قدم مضبوط کیے۔ معروف گلوکارہ مختار بیگم، ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کی اہلیہ نے ان کی سرپرستی کی۔ اسی دور میں انہوں نے ’بیبی نورجہاں‘ کے نام سے شہرت پائی اور متعدد خاموش فلموں میں اداکاری کی۔

Published: undefined

1932 میں ریلیز ہونے والی ششی پنوں ان کی پہلی ٹاکی فلم تھی۔ کلکتہ میں ہی فلم ساز پنچولی سے ملاقات ہوئی، جنہوں نے انہیں گل بکاولی میں منتخب کیا۔ اس فلم کے لیے نورجہاں کا پہلا گیت ریکارڈ ہوا، جو ان کے مستقبل کی نوید ثابت ہوا۔ چند برس بعد وہ لاہور واپس آئیں اور جی اے چشتی کے ساتھ اسٹیج پروگراموں میں حصہ لیا، اس زمانے میں فی گانا ساڑھے سات آنے معاوضہ ملتا تھا، جو قابلِ ذکر رقم تھی۔

1942 میں فلم خاندان کی کامیابی نے انہیں بطور اداکارہ مستحکم کر دیا۔ اسی فلم کے ہدایت کار شوکت حسین رضوی سے ان کی شادی ہوئی اور وہ ممبئی منتقل ہو گئیں۔ جگنو (1943) سمیت متعدد فلموں میں ان کی آواز نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ ٹھمری میں ان کی مہارت کے باعث انہیں اس صنف کی ملکہ بھی کہا جانے لگا۔

Published: undefined

1946 میں محبوب خان کی فلم انمول گھڑی میں نوشاد کی موسیقی پر گائے گئے نغمات، ’آواز دے کہاں ہے‘، ’آجا میری برباد محبت کے سہارے‘، آج بھی کلاسیک سمجھے جاتے ہیں۔ 1947 میں تقسیم کے بعد، دلیپ کمار کی پیشکش کے باوجود، نورجہاں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا اور کہا، ’’میں وہیں جاؤں گی جہاں پیدا ہوئی تھی۔‘‘

پاکستان میں انہوں نے فلم چن وے کو پروڈیوس اور ڈائریکٹ کیا، جس کے بعد دوپٹہ (1952) نے باکس آفس پر نئی تاریخ رقم کی۔ ان کے گیت آل انڈیا ریڈیو سے ریڈیو سیلون تک گونجتے رہے۔ بعد ازاں گلنار، انارکلی، کوئل، مرزا غالب جیسی فلموں میں ان کی آواز نے سامعین کو مسحور رکھا۔ 1963 میں انہوں نے اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کی مگر گائیکی کا سفر جاری رکھا۔

Published: undefined

1966 میں حکومتِ پاکستان نے انہیں تمغۂ امتیاز سے نوازا۔ 1982 میں انڈیا ٹاکیز کی گولڈن جوبلی پر انہوں نے ایک بار پھر ہندوستان میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ ذاتی زندگی میں انہیں نشیب و فراز کا سامنا رہا، دو شادیاں اور طلاقیں ہوئیں مگر فن پر ان کی گرفت کبھی کمزور نہ ہوئی۔

صحت کے مسائل کے باوجود وہ ثابت قدم رہیں۔ بالآخر 23 دسمبر 2000 کو کراچی میں ان کا انتقال ہوا اور انہیں گزری قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ نورجہاں اپنی آواز میں، اپنے گیتوں میں، اور برصغیر کی موسیقی کی روح بن کر آج بھی زندہ ہیں۔

(ان پٹ یو این آئی)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined