عظیم گلوکار مکیش / سوشل میڈیا
مکیش چندر ماتھر، جو بعد میں صرف مکیش کہلائے، 22 جولائی 1923 کو دہلی کے ایک متوسط پنجابی خاندان میں پیدا ہوئے۔ والد چاہتے تھے کہ وہ انجینئر بنیں، مگر مکیش کا دل موسیقی میں لگتا تھا۔ دسویں کے بعد پڑھائی ترک کر کے انہوں نے پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کی، مگر جلد ہی اسے خیر باد کہہ کر گائیکی کے سپنے لیے بمبئی جا پہنچے۔
مکیش دراصل اداکار بننا چاہتے تھے، انہوں نے چند فلموں میں کام بھی کیا، مگر ناکامی ہاتھ لگی۔ ان کا خواب چکنا چور ہوا لیکن قسمت انہیں ایک اور راہ پر لے جا رہی تھی، وہ راہ جس پر چل کر وہ لاکھوں دلوں کی آواز بنے۔
Published: undefined
سہگل کے مداح مکیش نے شروعات میں انہی کے انداز میں گایا۔ یہاں تک کہ سہگل خود بھی ان کی آواز سن کر چونک گئے اور کہا، ’’مجھے یاد نہیں یہ گانا کب گایا۔‘‘ لیکن 1948 کی فلم 'انداز' کے بعد مکیش نے سہگل کا انداز ترک کر کے دھیمی، درد بھری، جذبات سے لبریز آواز کے ساتھ اپنا الگ انداز اپنایا۔
1945 میں فلم ’پہلی نظر‘ کا گیت ’دل جلتا ہے تو جلنے دے‘ ان کا پہلا بریک تھرو تھا۔ پھر راج کپور نے ان کی آواز کو اپنا چہرہ بنا لیا۔ ’میرا جوتا ہے جاپانی‘ ہو یا ’جانے کہاں گئے وہ دن‘، مکیش کی آواز راج کپور کی شناخت بن گئی۔ راج کپور نے مکیش کی موت پر کہا تھا، ’’میری تو آواز ہی گم ہو گئی، کیونکہ مکیش میری آواز تھے۔‘‘
Published: undefined
مکیش صرف گلوکار نہیں، ایک حساس انسان تھے۔ ایک بار ایک بیمار لڑکی نے ان سے گانا سننے کی خواہش ظاہر کی۔ مکیش بغیر کسی معاوضے کے اسپتال پہنچے، گانا سنایا اور کہا، ’’اسے جتنی خوشی میرے آنے سے ملی، اس سے زیادہ خوشی مجھے یہاں آ کر ملی۔‘‘
مکیش نے تقریباً 200 فلموں میں گانے گائے اور ’یہ میرا دیوانہ پن ہے‘، ’دوست دوست نہ رہا‘، ’کبھی کبھی میرے دل میں‘، ’او جانے والے‘ جیسے درد بھرے نغموں کو لازوال بنا دیا۔ وہی مکیش ’میرا جوتا ہے جاپانی‘ جیسے خوش کن گیت بھی گاتے تھے اور بھکتی میں ڈوبی تلسی رامائن بھی۔
Published: undefined
1976 میں فلم ’ستیم شیوم سندرم‘ کے گیت ’چنچل نرمل شیتل کومل‘ کی ریکارڈنگ کے بعد وہ امریکہ کنسرٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ 27 اگست کو دل کا دورہ پڑا اور مکیش اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ مکیش کو چار بار فلم فیئر ایوارڈز اور ایک بار نیشنل ایوارڈ ملا۔ مگر ان سب سے بڑھ کر، ان کا سب سے بڑا انعام وہ درد تھا جو ان کی آواز میں تھا، جو ہر سننے والے کو اپنا محسوس ہوتا ہے۔ آج بھی جب ان کا کوئی گیت بجتا ہے، تو یوں لگتا ہے جیسے دل خود بول اٹھا ہو۔ مکیش واقعی درد کے بادشاہ تھے اور رہیں گے۔
(مآخذ: یو این آئی)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined