بالی ووڈ

مکیش کا ناکام اداکار سے لازوال گلوکار بننے تک کا سفر...برسی کے موقع پر

مکیش ابتدا میں اداکار بننا چاہتے تھے مگر قسمت نے انہیں گلوکاری کا بے تاج بادشاہ بنایا۔ سہگل سے متاثر ہو کر آغاز کیا اور اپنی الگ شناخت بنا کر تین دہائیوں تک فلمی دنیا پر راج کیا

<div class="paragraphs"><p>عظیم گلوکار مکیش / سوشل میڈیا</p></div>

عظیم گلوکار مکیش / سوشل میڈیا

 

ہندوستانی فلمی دنیا میں مکیش کا نام ایسے گلوکار کے طور پر لیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی درد بھری آواز اور سادہ دل شخصیت سے لاکھوں دل جیتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مکیش کی پہلی خواہش اداکار بننے کی تھی لیکن قسمت نے انہیں پلے بیک سنگنگ کا بے تاج بادشاہ بنا دیا۔

مکیش چند ماتھر 22 جولائی 1923 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد لالہ زورآور چند ماتھر انجینئر تھے اور چاہتے تھے کہ بیٹا بھی اسی پیشے کو اپنائے۔ مگر مکیش کے دل میں بچپن سے ہی موسیقی اور اداکاری کا خواب پل رہا تھا۔ وہ اُس زمانے کے مشہور گلوکار و اداکار کندن لال سہگل کے دلدادہ تھے اور اکثر سہگل کے انداز میں گیت گایا کرتے تھے۔

Published: undefined

دسویں جماعت کے بعد مکیش نے پڑھائی چھوڑ دی اور دہلی پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ سرویئر کی نوکری اختیار کی۔ سات ماہ اسی نوکری میں گزرے تھے کہ قسمت نے ان کے خواب کو پروان چڑھانے کا سامان کیا۔ بہن کی شادی میں گانا گاتے ہوئے مکیش کی آواز مشہور اداکار موتی لال کے کانوں تک پہنچی۔ موتی لال ان کے رشتہ دار بھی تھے اور مکیش کی گائیکی سے بےحد متاثر ہوئے۔ انہوں نے 1940 میں مکیش کو بمبئی بلا لیا اور پنڈت جگن ناتھ پرساد سے باقاعدہ موسیقی کی تربیت کا انتظام کیا۔

اسی سال مکیش کو اپنی پہلی فلم ’نردوش‘ میں اداکاری اور گانے کا موقع ملا۔ اشوک گھوش کی موسیقی میں انہوں نے ’دل ہی بجھا ہوا ہو تو‘ گایا لیکن یہ فلم باکس آفس پر ناکام رہی۔ اس کے بعد ’دکھ سکھ‘ اور ’آداب عرض‘ جیسی فلموں میں بھی قسمت نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ اداکاری کا خواب ابھی بھی ادھورا تھا۔

Published: undefined

اسی دوران موتی لال نے مکیش کو موسیقار انل بشواس سے متعارف کرایا۔ فلم ’پہلی نظر‘ (1945) میں مکیش نے ’دل جلتا ہے تو جلنے دے‘ گا کر پہچان بنائی۔ یہ گیت سہگل کے انداز میں تھا اور دلچسپ بات یہ کہ جب سہگل نے اسے سنا تو کہا، ’’مجھے یاد نہیں کہ یہ گیت میں نے کب گایا!‘‘ سہگل نے مکیش کو اپنا جانشیں قرار دیا۔

ابتدا میں سہگل کے رنگ میں گانے والے مکیش نے 1948 میں نوشاد کی موسیقی سے آراستہ فلم ’انداز‘ کے بعد اپنا منفرد انداز اختیار کیا۔ اس کے بعد مکیش کی شناخت سہگل کے سائے سے نکل کر اپنی اصل پہچان میں ڈھل گئی۔

Published: undefined

مکیش نے اداکاری کا خواب پھر سے آزمایا۔ 1953 میں ’معشوق‘ اور 1956 میں ’انوراگ‘ جیسی فلموں میں اداکار کی حیثیت سے نظر آئے لیکن ناکامی کے بعد انہوں نے مکمل طور پر گلوکاری پر توجہ مرکوز کر دی۔ 1958 میں فلم ’یہودی‘ کے گانے ’یہ میرا دیوانہ پن ہے‘ نے انہیں صفِ اول کے گلوکاروں میں شامل کر دیا۔

اگلی دو دہائیوں میں مکیش نے راج کپور سمیت کئی بڑے اداکاروں کی آواز بن کر ایک سے بڑھ کر ایک گانے دیے۔ ان کا فن صرف فلمی گائیکی تک محدود نہیں تھا بلکہ ان کی آواز میں ایک درد اور سادگی تھی جو سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتی تھی۔ ’سنگم‘، ’کبھی کبھی‘، ’انورادھا‘ اور ’رجنی گندھا‘ جیسی فلموں کے نغمے آج بھی ان کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔ مکیش نے تین دہائیوں میں 200 سے زائد فلموں کے لیے گیت گائے۔

Published: undefined

انہیں چار بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا جبکہ فلم ’رجنی گندھا‘ کے گیت ’کئی بار یوں بھی دیکھا ہے‘ کے لیے نیشنل ایوارڈ بھی ملا۔ مکیش کی ذاتی زندگی میں بھی ان کی حساس طبیعت جھلکتی تھی۔ وہ دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرتے۔ ایک واقعہ ان کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک بار ایک بیمار لڑکی نے خواہش ظاہر کی کہ اگر مکیش آ کر گانا سنائیں تو وہ ٹھیک ہو سکتی ہے۔ مکیش نے بغیر کسی معاوضے کے اسپتال جا کر گانا سنایا اور کہا، ’’جتنی خوشی اس لڑکی کو ملی ہے، اس سے زیادہ خوشی مجھے ملی ہے۔‘‘

امریکہ میں 27 اگست 1976 کو ایک کنسرٹ کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے مکیش کا انتقال ہوا۔ ان کی موت پر راج کپور نے کہا تھا، ’’مکیش کے جانے سے میری آواز اور میری روح، دونوں چلی گئیں۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined