فلمی دنیا میں اگر کسی ایک شخصیت نے بیک وقت اداکاری، مکالمہ نگاری اور منظرنامہ نویسی میں اپنی الگ شناخت قائم کی تو وہ قادر خان تھے۔ وہ محض ایک اداکار نہیں تھے بلکہ فلمی زبان کے ایسے معمار تھے جن کے مکالمے کرداروں سے نکل کر عوامی حافظے کا حصہ بن گئے۔ ان کی تحریر میں عوامی لہجہ، محاورے، طنز اور روزمرہ زندگی کی سچائی اس طرح شامل تھی کہ ناظر خود کو اس میں شامل محسوس کرتا تھا۔
بالی ووڈ کے جس طویل دور میں (1975 سے 2005) مختلف سپر اسٹارز کی حکمرانی رہی، اس دور کی کامیابی کی بنیادوں میں قادر خان کا کردار نمایاں طور پر موجود رہا۔ امیتابھ بچن، جتندر، متھن چکرورتی، انیل کپور، سلمان خان، سنجے دت، اکشے کمار اور خاص طور پر گووندا جیسے اداکاروں کے کیریئر میں وہ مضبوط ستون ثابت ہوئے۔ ان کے لکھے ہوئے مکالمے نہ صرف فلموں کی کامیابی کا سبب بنے بلکہ اداکاروں کی شبیہ کو بھی عوام میں مضبوط کیا۔
Published: undefined
اداکاری کے میدان میں قادر خان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر کردار میں خود کو مکمل طور پر ڈھال لیتے تھے۔ قلی اور وردی جیسی فلموں میں سخت اور سفاک ویلن، جیسی کرنی ویسی بھرنی میں سنجیدہ اور اثرانگیز کردار، اور باپ نمبری بیٹا دس نمبری یا پیار کا دیوتا جیسی فلموں میں بے ساختہ مزاح—ہر رنگ میں ان کی گرفت یکساں مضبوط نظر آتی ہے۔ ان کی آواز، لب و لہجہ اور مکالمہ ادا کرنے کا انداز کردار کو غیر معمولی بنا دیتا تھا۔
قادر خان کی زندگی خود ایک جدوجہد کی داستان ہے۔ ان کی پیدائش 22 اکتوبر 1937 کو کابل میں ہوئی۔ ان سے قبل ان کے تین بھائی بچپن میں انتقال کر گئے تھے، جس کے باعث خاندان شدید ذہنی دباؤ میں تھا۔ قادر خان کی پیدائش کے بعد ان کی والدہ کے دل میں مستقل خوف رہا، اور اسی پس منظر میں خاندان نے افغانستان چھوڑ کر ہندوستان آنے کا فیصلہ کیا۔ ممبئی کے دھاراوی میں قیام کے دوران گھریلو حالات نہایت خراب رہے۔ والدین کی علیحدگی کے بعد معاشی مشکلات نے زندگی کو اور دشوار بنا دیا۔
Published: undefined
بچپن میں قادر خان نے غربت کے انتہائی کٹھن دن دیکھے۔ کبھی مسجد کے باہر بھیک مانگنی پڑی، کبھی کئی دن فاقے میں گزرے۔ مگر انہی حالات میں ان کی والدہ نے تعلیم کو سب سے بڑی طاقت سمجھا اور انہیں پڑھائی پر توجہ دینے کی تلقین کی۔ یہی فیصلہ ان کی زندگی کا رخ بدلنے والا ثابت ہوا۔ انہوں نے اسکولی تعلیم مکمل کی اور اپنی ذہانت اور محنت سے آگے بڑھتے چلے گئے۔
قادر خان پڑھائی میں غیر معمولی طور پر ذہین تھے۔ انہوں نے ممبئی کے اسماعیل یوسف کالج سے گریجویشن کیا اور بعد ازاں سول انجینئرنگ میں پوسٹ گریجویشن کی۔ کچھ عرصہ وہ ایک انجینئرنگ کالج میں لیکچرار بھی رہے۔ اسی دوران انہیں اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا موقع ملا، جہاں ان کی تخلیقی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں۔ کالج کی تقریبات میں ان کے لکھے اور ادا کیے گئے ڈرامے اس قدر مقبول ہوئے کہ یہ جملہ مشہور ہو گیا کہ جس نے قادر خان کا ڈرامہ نہیں دیکھا، اس نے کالج دیکھا ہی نہیں۔
Published: undefined
فلمی دنیا میں ان کا باقاعدہ آغاز 1973 میں فلم داغ سے ہوا، اگرچہ ابتدا میں انہیں خاص کامیابی نہ مل سکی۔ بعد ازاں ان کی ملاقات دلیپ کمار سے ہوئی جنہوں نے ان کی صلاحیت کو پہچانا اور انہیں فلم سگینہ اور بیراگ میں کام کا موقع دیا۔ اسی عرصے میں انہیں جوانی دیوانی جیسی فلم کے مکالمے لکھنے کا موقع ملا، جس نے ان کے لیے فلمی دنیا کے دروازے کھول دیے۔
انیس سو ستر اور اسی کی دہائی میں قادر خان نے درجنوں فلموں کے مکالمے اور کہانیاں لکھیں۔ خون پسینہ، پرورش، مقدر کا سکندر، مسٹر نٹور لال، سہاگ، قربانی، یارانہ اور نصیب جیسی فلموں نے انہیں مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ بطور مکالمہ نگار ان کی تحریر فلم کی جان بن جاتی تھی، اور بطور اداکار ان کی موجودگی کردار کو وزن عطا کرتی تھی۔
Published: undefined
قادر خان کی اصل وراثت ان کی زبان ہے—وہ زبان جو سادہ بھی ہے اور تہہ دار بھی، جو ہنساتی بھی ہے اور سوچنے پر مجبور بھی کرتی ہے۔ ان کے مکالمے آج بھی دہرائے جاتے ہیں اور ان کے کردار آج بھی یادوں میں زندہ ہیں۔ 31 دسمبر کو ان کی برسی کے موقع پر یہ کہنا بالکل درست ہے کہ قادر خان صرف ایک اداکار یا مصنف نہیں تھے، بلکہ وہ بالی ووڈ کی فلمی روح کا ایک لازوال حصہ تھے۔
(ان پٹ: یو این آئی)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined