بالی ووڈ

رشی کیش مکھرجی: بالی وڈ کے لازوال اسٹار میکر اور معیاری سنیما کے علمبردار

رشی کیش مکھرجی نے دھرمیندر، راجیش کھنہ، امیتابھ بچن اور جیہ بھادوڑی جیسے ستاروں کو نیا مقام دیا۔ مزاحیہ و سماجی فلموں کے ذریعے وہ بالی وڈ میں معیاری سنیما کے نمائندہ بنے

<div class="paragraphs"><p>رشی کیش مکھرجی / تصویر بشکریہ ایکس</p></div>

رشی کیش مکھرجی / تصویر بشکریہ ایکس

 

بالی وڈ کی تاریخ میں کچھ ایسے فلم ساز اور ہدایت کار بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنی فلموں سے نہ صرف کروڑوں ناظرین کے دل جیتے بلکہ متعدد اداکاروں کو وہ مقام بھی دلایا جس کا وہ خواب دیکھتے تھے۔ انہی شخصیات میں ایک نام رشی کیش مکھرجی کا ہے، جنہیں فلم انڈسٹری کا ’اسٹار میکر‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا فلمی سفر صرف تفریح تک محدود نہیں رہا بلکہ انہوں نے اپنی فلموں کے ذریعے سماجی مسائل، انسانی رشتوں اور اقدار کو بھی نمایاں کیا۔ دھرمیندر، راجیش کھنہ، امیتابھ بچن، امول پالیکر اور جیہ بھادوڑی جیسے اداکاروں کے کیریئر میں ان کا کردار فیصلہ کن رہا۔

رشی کیش مکھرجی 30 ستمبر 1922 کو کلکتہ (کولکاتا) میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور کچھ عرصے تک ریاضی اور سائنس کے استاد بھی رہے لیکن جلد ہی ان کی دلچسپی فلمی دنیا کی طرف بڑھی۔ 1940 کی دہائی میں انہوں نے نیو تھیئٹر میں بطور کیمرہ مین کام شروع کیا۔ یہاں ان کی ملاقات مشہور فلم ایڈیٹر سبودھ متر سے ہوئی جن سے انہوں نے فلم ایڈیٹنگ کی باریکیاں سیکھیں۔ بعد ازاں وہ فلمساز بمل رائے کے اسسٹنٹ بن گئے اور ان کے ساتھ مل کر ’دو بیگھہ زمین‘ اور ’دیوداس‘ جیسی کلاسک فلموں کی ایڈیٹنگ کی۔

Published: undefined

رشی کیش نے 1957 میں فلم ’مسافر‘ سے ہدایت کاری کا آغاز کیا۔ اگرچہ دلیپ کمار اور سچترا سین جیسے بڑے اداکاروں کے باوجود فلم باکس آفس پر ناکام رہی لیکن دو سال بعد 1959 میں انہوں نے راج کپور کے ساتھ ’اناڑی‘ بنائی جو شاندار کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ یہ فلم ان کے کیریئر کا پہلا بڑا موڑ ثابت ہوئی۔

1960 میں بننے والی ’انورادھا‘ تجارتی طور پر زیادہ کامیاب نہ ہو سکی لیکن اسے نیشنل ایوارڈ اور برلن فلم فیسٹول میں اعزاز ملا۔ 1966 میں ریلیز ہونے والی ’آشیرواد‘ نے انہیں بالی وڈ کے صفِ اول کے ہدایت کاروں میں شامل کر دیا۔ اس فلم نے ذات پات اور جاگیرداری نظام پر بھرپور تنقید کی اور اشوک کمار پر فلمایا گیا نغمہ ’ریل گاڑی، ریل گاڑی‘ آج بھی یادگار ہے۔

Published: undefined

1969 میں ریلیز ہونے والی ’ستیہ کام‘ کو ان کی بہترین فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دھرمیندر اور شرمیلا ٹیگور کی اداکاری والی اس فلم میں آزادی کے بعد کے ہندوستان کی تلخ حقیقتیں دکھائی گئیں۔ اگرچہ فلم تجارتی طور پر کامیاب نہ ہوئی لیکن نقادوں نے اسے شاہکار قرار دیا۔

1971 میں جیہ بھادوڑی کو پہلی بڑی کامیابی رشی کیش کی فلم ’گڈی‘ سے ملی۔ اس میں انہوں نے ایک شوخ لڑکی کا کردار ادا کیا جو دھرمیندر کو دیوانہ وار پسند کرتی ہے۔ اس کردار نے انہیں گھر گھر میں مقبول بنا دیا۔ رشی کیش مکھرجی نے جیہ کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھا اور ان کے ساتھ ’باورچی‘، ’ابھیمان‘، ’چپکے چپکے‘ اور ’ملی‘ جیسی کامیاب فلمیں بنائیں۔

Published: undefined

1970 کی فلم ’آنند‘ رشی کیش مکھرجی کی سب سے مشہور فلموں میں سے ہے۔ راجیش کھنہ نے اس میں ایک لا علاج مریض کا کردار ادا کیا۔ فلم کے مشہور مکالمے ’بابو موشائے، ہم سب رنگ منچ کی کٹھ پتلیاں ہیں‘ نے راجیش کھنہ کو نیا مقام دیا اور فلم بالی وڈ کی تاریخ میں امر ہو گئی۔

1973 میں ’ابھیمان‘ ریلیز ہوئی جس میں امیتابھ بچن نے ایک ایسے شوہر کا کردار ادا کیا جو بیوی کی کامیابی برداشت نہیں کر پاتا۔ اس کے بعد 1975 میں انہوں نے دھرمیندر اور امیتابھ کو لے کر ’چپکے چپکے‘ بنائی جو مزاحیہ فلموں میں شاہکار سمجھی جاتی ہے۔ 1979 کی ’گول مال‘ تو آج بھی بہترین کامیڈی فلموں کی فہرست میں سب سے اوپر شمار کی جاتی ہے۔

Published: undefined

1988 میں ’ناممکن‘ کی ناکامی کے بعد رشی کیش مکھرجی نے محسوس کیا کہ بالی وڈ میں کمرشل ازم حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے تقریباً دس سال فلموں سے دوری اختیار کی۔ 1998 میں انہوں نے انل کپور کے ساتھ ’جھوٹ بولے کوا کاٹے‘ بنائی لیکن یہ بھی ناکام رہی۔

رشی کیش مکھرجی کو اپنے فلمی کیریئر میں سات بار فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ 1960 کی ’انورادھا‘ کے لیے نیشنل ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اور پدم وبھوشن جیسے بڑے اعزازات سے نوازا گیا۔

Published: undefined

رشی کیش مکھرجی کا شمار ان فلم سازوں میں ہوتا ہے جو زیادہ فلمیں بنانے کے بجائے کم مگر معیاری فلمیں بنانے کے قائل تھے۔ انہوں نے تین دہائیوں پر مشتمل اپنے کیریئر میں 13 فلمیں پروڈیوس اور 43 فلموں کی ہدایت کاری کی۔ ایڈیٹنگ، کہانی اور اسکرین پلے میں بھی ان کا بڑا حصہ رہا۔

27 اگست 2006 کو یہ عظیم فلمساز دنیا سے رخصت ہو گیا لیکن ان کی فلمیں آج بھی ناظرین کے دلوں پر نقش ہیں۔ ان کا سنیما نہ صرف تفریح فراہم کرتا ہے بلکہ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔ وہ بالی وڈ کے ان چند ہدایت کاروں میں شامل ہیں جنہوں نے کامیڈی اور سماجی دونوں اصناف میں یکساں کمال دکھایا۔

(مآخذ: یو این آئی)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined