عرب ممالک

کیا خاشقجی معاملہ امریکہ اور سعودی عرب کی دشمنی کی وجہ بننے جا رہا ہے؟

سعودی صحافی خاشقجی کے معاملے پر امریکا نے سعودی عرب پر اقتصادی دباؤ ڈالنے کا عہد کیا ہے تاہم ریاض حکومت امریکی پابندیوں کے نتیجے میں جوابی کارروائی کے لیے پرعزم ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

سعودی عرب اور امریکا دونوں ہی غور کر رہے ہیں کہ جمال خاشقجی کیس کے حوالے سے ان کی حکمت عملی کیا ہونا چاہیے۔ سعودی حکومت کا ناقد یہ صحافی 2 اکتوبر کو اس وقت لاپتہ ہوا گیا تھا، جب وہ ترک شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے گیا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ سعودی ایجنٹس نے اس صحافی کو قونصل خانے میں ہی ہلاک کر دیا ہے۔

Published: undefined

ویک اینڈ پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر جمال خاشقجی کو استنبول میں واقع سعودی قونصلیٹ میں ہلاک کیے جانے کی تصدیق ہو جاتی ہے تو ریاض حکومت کو ’سخت سزا‘ دی جائے گی۔ دوسری طرف سعودی عرب نے بھی اس امریکی بیان پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔

Published: undefined

’الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں‘

تاہم سوال یہ ہے کہ یہ سزا کیا ہو گی اور اس کے جواب میں سعودی عرب کا ردعمل کیا ہو گا؟ ریاض حکومت خبردار کر چکی ہے کہ اگر امریکا یا مغربی ممالک نے اس معاملے پر اس کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کیں تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ سعودی عرب خاشقجی کی گمشدگی یا ہلاکت میں اس کے ملوث ہونے کے الزامات کو ’جھوٹ‘ قرار دیتا ہے۔

Published: undefined

یہ ابھی واضح نہیں کہ واشنگٹن حکومت کا اگلا قدم کیا ہو گا لیکن امریکی کانگریس کے متعدد ارکان کا کہنا ہے کہ امریکا کو سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی روک دینا چاہیے۔ فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے اہم سیاستدان اور سینیٹر مارکو روبیو نے بھی یہی تجویز دی ہے۔

Published: undefined

اسلحے کی فروخت روکی جائے

امریکی سینیٹر مارکو روبیو نے کہا، ’’ہم اگر اس وقت فوری ایکشن نہیں لیں گے تو ہمارے لیے دنیا بھر کی دولت کے ذریعے بھی انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی ساکھ بحال کرنا ممکن نہیں رہے گا۔‘‘ روبیو کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو اسلحے کی فراہمی کو روکنے سے مشرق وسطیٰ میں ہمارے مستقبل کے رویے کی سمت واضح ہو سکے گی۔

Published: undefined

ری پبلکن سینیٹر جیف فلیک نے بھی مشورہ دیا ہے کہ واشنگٹن حکومت کو خاشقجی کے معاملے پر فوری ایکشن لیتے ہوئے یمن میں فعال سعودی فورسز کے لیے اسلحے کی فراہمی روک دینا چاہیے۔ نجی کمپنیوں نے تو ریاض حکومت کے خلاف ایکشن لے بھی لیا ہے۔

Published: undefined

مائینز یونیورسٹی کے سینٹر فار رسرچ آن دی عرب ورلڈ کے سربراہ گونٹر مائر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’عالمی سرمایہ کار میڈیا اور اپنے صارفین کی طرف سے دباؤ کی وجہ سے سعودی عرب کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر نظر ثانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ خاشقجی معاملے کی وجہ سے ’سعودی عرب کے لیے عالمی اقتصادی رویوں پر شدید اثر پڑے گا‘۔

Published: undefined

یونیورسٹی آف سدرن ڈنمارک کے مشرق وسطیٰ شعبے سے منسلک پروفیسر مارٹین بیک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امریکی پابندیوں کے نتیجے میں سعودی عرب جوابی کارروائی کے طور پر تیل کی پیداوار میں کمی کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سعودی عرب نے یہ قدم اٹھایا تو اس کے نتیجے میں مغربی ممالک کی اقتصادیات کو اثر پڑے گا۔

Published: undefined

ممکنہ سعودی ردعمل

سعودی حکومت اس بات پر بھی غور کر رہی ہے کہ امریکی معیشت میں سرمایہ کاری کو کم کر دے۔ اعدادوشمار کے مطابق اس وقت امریکی معیشت میں سعودی سرمایا کاری تقریبا آٹھ سو بلین ڈٓالر کے برابر ہے۔

Published: undefined

گونٹر مائر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ سعودی عرب نے امریکا میں ہوٹل، رئیل اسٹیٹ اور مصنوعات سازی جیسے شعبوں میں رقوم لگا رکھی ہیں اور اگر یہ سرمایہ کاری کم کی گئی تو امریکی معیشت کو بڑا نقصان ہونے کا اندیشہ ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سعودی نواز میڈیا اصرار کر رہا ہے کہ جمال خاشقجی کی گمشدگی کے پیچھے قطر حکومت کی سازش کار فرما ہے۔

Published: undefined

’ہو گا کچھ بھی نہیں‘

جمال خاشقجی کے کیس پر امریکا اور سعودی عرب کی طرف سے بیان بازی کے باوجود کئی مبصرین نے اس شک کا اظہار کیا ہے کہ یہ دونوں ممالک سنجیدہ اقتصادی محاذ آرائی کا حصہ بنیں گے۔ گونٹر مائر نے کہا کہ انہیں شک ہے کہ امریکی صدر سعودی عرب پر سخت پابندیاں عائد کریں گے۔

Published: undefined

پروفیسر مارٹین بیک کا بھی یہی کہنا ہے کہ سعودی عرب اور امریکا کے باہمی تعلقات میں سنگین کشیدگی پیدا ہونے کے امکان نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے میں ریاض حکومت اگر عقلمندی سے کام لے گی تو وہ امریکا سے الجھنے کی کوشش نہیں کرے گی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined