’’غالب پر خود اردو شاعری کو ناز ہے ‘‘

غالب کی شاعری عام آدمی سے وابستہ ہے۔شمالی ہند میں اور دہلی کے آس پاس کے علاقوں میں بات چیت کے دوران غالب کے اشعار عام طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

یو این آئی

اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کے یوم پیدائش پر پاسبان ادب کے زیر اہتمام منعقدہ آن لائن مذاکرہ پرایک خصوصی پروگرام میں شرکاء نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ غالب پر خود اردو شاعری کو ناز ہے، غالب کی عظمت کا راز یہ ہے کہ وہ کئی بار اس مقام پر نظر آتے ہیں جہاں عام زبان میں گفتگو کرنا محال ہے ۔

مذکورہ پروگرام میں شاعروصحافی شمیم طارق نےغالب کی حیات و شخصیت اور شاعری کے حوالے سے اپنے خطاب میں کہاکہ غالب کی حیات و شخصیت اور شاعری کے حوالے سے ان کو خود بھی اس حقیقت کا احساس تھا اور انہوں نے اس کا اظہار بھی کیا ہے ۔


اس خصوصی مجلس کا انعقاد ’’پاسبان ادب ‘‘ نے کیا تھا جس کے سربراہ قیصر خالد آئی پی ایس ہیں ۔قیصر خالد نے اس موقع پر خصوصی مقرر کا استقبال کرنے کے بعد کہا کہ غالب میں ان لوگوں کی دلچسپی بھی بڑھ رہی ہے جو اردو نہیں جانتے ۔اس پروگرام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ غالب کو اردو نہ جاننے والے طبقہ میں بھی متعارف کرایا جائے ۔

قیصر خالد نے کہاکہ شمالی ہند میں اور دلی کے آس پاس کے علاقوں میں بات چیت کے دوران غالب کے اشعار عام طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔غالب کی شاعری عام آدمی سے وابستہ ہے۔


اس موقع پر شمیم طارق نے اپنی طویل گفتگو کو چار حصوں میں تقسیم کیا، انہوں نے پہلے یہ بتایا کہ اردو کے اہم ناقدین نے غالب کے بارے میں کیا لکھا ہے ۔ اس ضمن میں انہوں نے عبدالرحمان بجنوری ، یاس یگانہ چنگیزی ،آل احمد سرور ، ظ انصاری اور پروفیسر گوپی چند نارنگ کی کتابوں کے اقتباسات پڑھ کر سنائے اور بتایا کہ یاس یگانہ نے غالب کو رد کرنے کی کوشش کی مگر وہ خود کو رد کر بیٹھے۔ انہوں نے علامہ اقبال کی ایک نظم ’’مرزا غالب ‘‘ کا تجزیہ پیش کیا اور کہا کہ غالب کو اس سے بہتر خراج عقیدت نہیں پیش کیا جا سکتا تھا ۔انہوں نے یہ بیان کیا کہ غالب کا امتیاز ان کے نادر خیالات اور اچھوتے پیرایہ اظہار سے قائم ہوتا ہے ۔جبکہ غالب اپنے خیالات کی ندرت اور وسعت کی وجہ سے بھی ہندوستانی ہے اور پیرایہ اظہار کے سبب بھی ۔غالب کو ہندوستانیت نے اور یہاں کے فکروفلسفہ نے فائدہ پہنچایا ہے ۔کیونکہ منفی بات کہکر مثبت مفہوم نکالنا ہندوستانیت کی روح ہے یہ روح غالب کی شاعری میں پوری طرح جلوہ گر ہوئی ہے ۔آخر میں انہوں نے کہا کہ وہ غالب کو سمجھنے کے مدعی نہیں ہیں ،مگر ان کے شیدائی ہیں۔

غالب کی یاد میں منعقدہ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر ذاکر نے کی اور غالب کے کئی اشعار بھی پڑھ کرسنائے اور کہاکہ پاسبانِ ادب کی روزِ اول ہی سے یہ کوشس رہی ہے کہ زبان و ادب کے ذریعہ سماج و معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے شعرا و ادبا سے عوام الناس کو روشناس کرائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔