گاؤں کی بیٹیوں پر ملک کو فخر، دورالہ کی پارول، بہادر پور کی انو اور جھابیران کی پراچی کی متاثر کن کہانیاں

بیٹیوں میں ضلع میرٹھ کی پارول چودھری اور انو، جنہوں نے طلائی تمغہ جیتا ہے اور ضلع سہارنپور کی پراچی چودھری بھی شامل ہیں، جنہوں نے سلور میڈل حاصل کیا ہے، یہ تینوں دیہی پس منظر سے آتی ہیں

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

آس محمد کیف

ایشین گیمز میں ہندوستان نے تاریخی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمغوں کی سنچری مکمل کر لی ہے۔ ان تمغوں میں خواتین کا بھی کافی تعاون ہیں اور قوم کی بیٹیوں کی خوب تعریفیں کی جا رہی ہیں۔ ان بیٹیوں میں ضلع میرٹھ کی پارول چودھری اور انو، جنہوں نے طلائی تمغہ جیتا ہے اور ضلع سہارنپور کی پراچی چودھری بھی شامل ہیں، جنہوں نے سلور میڈل حاصل کیا ہے۔ ان تینوں کی خامیابی اس لیے خاص ہے کہ ان کا تعلق دیہی اور انتہائی پسماندہ علاقوں سے ہے اور تینوں گاؤں کیپگڈنڈیوں اور کھیتوں میں مشق کرتے ہوئے یہاں تک پہنچیں ہیں۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ان کا ابتدائی کوچ ان کے والد یا خاندان کا کوئی فرد تھا۔ پارول چودھری میرٹھ کے اکلوتا گاؤں کی، انو اسی ضلع کے بہادر پور کی، جبکہ پراچی چودھری سہارنپور کے گاؤں جھابیران کی رہنے والی ہیں۔

پارول چودھری نے اسٹیپل چیز 5000 میٹر میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔ ان کا گاؤں دورالہ کے قریب ہے۔ گاؤں کے نوجوان اب کہہ رہے ہیں کہ ان کے گاؤں کا پتہ تو گوگل بھی نہیں بتا پاتا لیکن اب دنیا جان گئی ہے۔ پارول چودھری ایشیائی کھیلوں میں 5000 میٹر کی دوڑ میں طلائی تمغہ جیتنے والی پہلی ہندوستانی خاتون ہیں۔ پارول چودھری نے 3000 میٹر میں بھی چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔ انو کا گاؤں بہادر پور پارول چودھری سے کے گاؤں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ انو نے جیولین تھرو میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔


پارول چودھری کے والد کرشن پال سنگھ بتاتے ہیں کہ پارول نے گاؤں کی چکروڑ سے دوڑنا شروع کیا اور 24 گھنٹے کے اندر اس نے دو تمغے جیت کر پورے ملک کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ کرشن پال بتاتے ہیں کہ بعد میں پارول پریکٹس کے لیے آٹو سے میرٹھ اسٹیڈیم جاتی تھی۔ کرشن پال کا کہنا ہے کہ ’’میں نے پارول کو بیٹے کی طرح آگے بڑھنے کی مکمل آزادی اور مدد دی اور آج مجھے اس کے نام سے جانا جا رہا ہے۔ بڑے لوگوں کے فون آ رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ کیا آپ پارول کے والد ہیں؟ جب میں کہتا ہوں کہ ہاں میں پارول کا پاپا بول رہا ہوں تو میرا سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا ہے۔‘‘

پارول چودھری کا گاؤں اکلوتا دورالہ کے قریب ہے، جبکہ انو کا گاؤں بہادر پور سردھانہ کے علاقے میں آتا ہے۔ انو رانی نے جیولن تھرو میں طلائی تمغہ جیتا ہے۔ ایک وقت تھا جب انو رانی کے والد نے ان کی مشق کے لیے جیولن (نیزہ) خریدنے کے لیے قرض لیا تھا۔ آج انو رانی نے ملک پر قرض چڑھا دیا ہے۔ انو رانی چین میں ہونے والے ایشین گیمز سے 15 روز قبل بخار میں مبتلا تھیں۔ کمزور جسم سے صحت یاب ہوتے ہوئے گولڈ میڈل جیتنا کافی متاثر کن لگتا ہے۔ انو رانی یوں تو سچن تنڈولکر کی طرح کرکٹر بننا چاہتی تھیں اور انہوں نے کرکٹ کھیلنا بھی شروع کر دی تھا۔ انو رانی ایک باصلاحیت کرکٹر تھیں لیکن ایک دن ان کے بھائی اوپیندر نے ان کی دوسری صلاحیتوں کو پہچان لیا۔ اوپیندر نے کہا کہ ’’ایک دنن انو کھیت میں گنے پھینک رہی تھی جو بہت دور گر رہا تھا، اس کی تھرو بہت اچھی تھی۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ جیولین تھرو اس کے لیے بہتر آپشن ہو سکتا ہے۔ گھر میں سب سے چھوٹی انو ڈسکس، گولا اور گنے سب پھینکتی تھیں۔‘‘ انو کے والد امرپال کا کہنا ہے کہ ’’اگر بیٹیوں کو مواقع ملے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں۔ انو نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔‘‘


وہیں، سہارنپور کے جھابیران کی پراچی چودھری نے 400 میٹر ریلے ریس میں چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ پراچی چودھری کو غذا اور دوڑنے کے جوتوں کے لیے جدوجہد کرنی پڑی تھی۔ پراچی کے لیے پہلے اسپائیک جوتے ان کے والد جے ویر سنگھ قرض پر خرید کر لائے تھے۔ پراچی مقابلے کے دن بہت دباؤ میں تھیں اور پوری رات سو نہیں پائیں۔ ان کی ماں راجیش دیوی بتاتی ہیں کہ وہ صرف یہ کہہ رہی تھی کہ ماں میں خالی ہاتھ کیسے آؤں گی؟ اب وہ چاندی لے کر آ رہی ہے۔ جے ویر نے کہا کہ بیٹی جیتنے کے بعد واپس آنے کا وعدہ کر کے گئی تھی۔ ہمارے پورے خاندان نے اس کے لیے ایک خواب دیکھا تھا اور اس نے یہ سچ کر دکھایا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔