محبت میں اتنی کشش کیوں? اور ’وفاداری‘ پر اتنا زور کیوں؟

محبت کی شدت سے شاید ہی کسی کو انکار ہو مگر ہماری زندگی میں اس کی جڑیں اتنی گہری کیوں ہیں؟کیا وجہ ہے کہ محبت کی چند بوندیں برستے ہی دو پریمی آپس میں ’زندگی بھر ساتھ رہنے‘ کے عہد وپیمان کر ڈالتے ہیں؟

محبت میں اتنی کشش کیوں? اور ’وفاداری‘ پر اتنا زور کیوں؟
محبت میں اتنی کشش کیوں? اور ’وفاداری‘ پر اتنا زور کیوں؟
user

Dw

آج کے سائنسی دور میں انسان بہت سی ایسی چیزیں رد کر چکا ہے جو عقل کے مضبوط پنجے کی گرفت میں نہیں آتیں۔ لیکن محبت کا منہ زور گھوڑا دیومالائی تصورات کو لادے سر پٹ دوڑے چلا جا رہا ہے۔

محبت کی شدت کے بارے میں ارتقائی نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں، ''ہمارے قدیم آباؤ و اجداد نے اپنی بقا اور نسل کو آگے بڑھانے کے لیے جو قدم اٹھائے ہماری آج کی زندگیاں انہی کی بازگشت ہیں۔‘‘ ان کا ماننا ہے کہ ارتقائی مراحل میں انسانی دماغ نے ایسی چیزوں کو ترجیح دی جو بقا اور نسل کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری تھیں۔ مثال کے طور پر زندہ رہنے کے لیے غذائیت سے بھرپور غذائیں اور تولیدی عمل اور پرورش کے لیے صحت مند ساتھی۔


جنسی ساتھی منتخب کرتے ہوئے 'وفاداری‘ انسان کے لیے کیوں ضروری تھی؟

ارتقائی نفسیات کے بنیاد گزاروں میں سے ایک ڈاکٹر ڈیوڈ بس کے مطابق ارتقائی مراحل میں عورت اور مرد کو موافقت پذیری کے مختلف چیلنجز درپیش تھے۔ یہ جاننے کے لیے کہ مرد اور عورت جنسی تعلقات سے پہلے کس طرح کی الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں اور ساتھی کا انتخاب کس بنیاد پر کرتے ہیں، ڈاکٹر بس نے 1989ء میں 37 مختلف ثقافتوں سے منتخب کردہ 10 ہزار سے زائد افراد پر تحقیق کی۔

ڈاکٹر بس کے مطابق عورت کے سامنے حمل، اپنی چھاتیوں میں دودھ کے لیے نسبتاً بہتر غذا اور پھر طویل مدت تک بچے کی پرورش کی ذمہ داریاں نبھانے کی مشکلات تھیں (خیال رہے انسانی بچہ دیگر جانوروں کی نسبت اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کافی زیادہ وقت لیتا ہے)۔ اس کے برعکس مرد کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ جس بچے کو وہ اپنا سمجھ رہا ہے کیا واقعی اسی کا ہے؟ کیوں کہ عورت کو کسی بھی مرد سے حمل ہو سکتا تھا اس لیے مرد تذبذب کا شکار رہتا کہ جس بچے کی خوراک اور حفاظت کے لیے وہ سخت مشقت کاٹ رہا وہ جینیاتی طور پر اسی کی اولاد ہے بھی کہ نہیں۔


ڈاکٹر شمٹ اور ڈاکٹر بس کا 2011ء میں شائع ہونے والا مشترکہ تحقیقاتی کام 'ارتقائی نفسیات اور فیمینزم‘ بہت صراحت سے جنسی ملاپ کے لیے خواتین اور مردوں کی حکمت عملی پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس کے مطابق اپنی مشکلات کے حل کے لیے خواتین ایسے مرد ساتھیوں کے ساتھ جنسی تعلقات استوار کرتیں جو وفادار ہو اور اپنے بچے کے لیے خوراک اور تحفظ فراہم کرنے کے قابل اور رضامند ہو۔ جبکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ جس بچے کی وہ پرورش کر رہے ہیں انہی کی جینیاتی اولاد ہے، مردوں نے بھی ایسی عورتوں کو منتخب کرنا شروع کر دیا جو وفادار ہوں اور جنسی تعلقات فقط ان سے رکھتی ہوں۔

یوں مرد اور عورت کے لیے ضروری تھا کہ وہ کم از کم اس قدر طویل المدتی تعلق قائم کریں جس میں بچے کی پرورش ممکن ہو سکے۔ مگر وہ کونسی چیز تھی جو دو مختلف انسانوں کو آپس میں باندھنے کی مقناطیسی قوت رکھتی ہو؟ بہت سے نظریہ سازوں کا موقف ہے کہ تب محبت ہماری زندگی کا حصہ بنی اور انسانی ارتقاء میں نہایت بنیادی کردار ادا کیا۔


طویل المدتی تعلقات استوار کرنے میں محبت کا کردار

اگرچہ جنسی عمل کے نتیجے میں حاصل ہونے والی بے پناہ لذت پہلے سے موجود تھی تاکہ نسل آگے بڑھتی رہے لیکن یہ کسی بھی طرح طویل المدتی تعلقات سے مشروط نہ تھی۔ سو ایسا بندوبست ضروری تھا جو انسانوں کو وقتی لذت کے ساتھ ساتھ لمبے عرصے کے لیے آپس میں جوڑے رکھے۔

محبت کے موضوع پر کئی کتابوں اور تحقیقی مضامین کی خالق ہیلن الزبتھ فشر کے مطابق جنسی عمل سے ہمارے دماغ میں ٹیسٹوسٹیرون اور ایسٹروجن کا اخراج ہوتا ہے جو کسی طویل بندھن کی طرف راغب تو کر سکتے ہیں مگر بذات خود اس کا سبب نہیں بنتے۔ جبکہ ڈوپامین اور آکسیٹوسن جیسے ہارمونز محبت اور شدید جذباتی وابستگی کے نتیجے میں خارج ہوتے ہیں جو ہمیں طویل مدتی تعلقات پر مجبور کرتے ہیں۔


گویا محبت انسانوں کو لمبے عرصے کے لیے تعلق کی ڈور سے باندھنے کے لیے آلہ کار تھی۔ یہ وہ مقناطیس تھا، جس نے دو مختلف انسانوں کو اپنی کشش کے سبب جوڑ کے رکھا تاکہ وہ وقتی لذت تک محدود رہنے کے بجائے اپنے بچے کی پرورش کرنے تک ساتھ رہیں۔ ایک ایسی جگہ جہاں مردوں کے لیے بہت سی خواتین اور خواتین کے لیے بہت سے مرد موجود تھے محبت نے مزید دو اور طریقوں سے بھی طویل بندھن میں مدد فراہم کی۔

جب کوئی فرد اپنے ساتھی کے ساتھ مطمئن ہو تو اسے آس پاس کے دیگر افراد اپنی جسمانی خوبصورتی کے باوجود کم پرکشش محسوس ہوتے ہیں۔ محبت کسی بھی ایسے لمحے دفاعی حربے کے طور پر کام کرتی رہی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔


دوسرا محبت اپنے ساتھ حسد لائی جسے بظاہر منفی جذبہ سمجھا جاتا ہے لیکن ارتقائی نفسیات کے ماہرین اسے ارتقائی مراحل میں انتہائی کارآمد تصور کرتے ہیں۔ اس کے سبب مرد زیادہ چوکس رہتا اور اپنے ساتھی کو بہتر خوراک اور تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتا تاکہ وہ اسے کمزور سمجھ کر چھوڑے نہیں۔ جبکہ عورت اس کے بچے کی پرورش زیادہ بہتر طریقے سے کرتی تاکہ وہ اپنی نسل آگے بڑھانے کے لیے کسی اور کی جانب راغب نہ ہو۔

کیا ہمیں آج بھی محبت کی ضرورت ہے؟

مختلف ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے انسانوں کے طویل المدتی تعلقات باقاعدہ شادی کی رسم میں تبدیل ہوئے۔ جبری شادیوں اور طے شدہ رشتوں کی طویل تاریخ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ آج بھی دو انسانوں کو بندھن میں باندھنے کے لیے محبت کا کردار انتہائی نمایاں ہے۔


2010 میں Pew ریسرچ سینٹر کے امریکہ میں منعقد کردہ سروے کے مطابق 93 فیصد شادی شدہ افراد نے شادی کے فیصلے کی بنیادی وجہ محبت کو قرار دیا۔ ایسے افراد جنہیں ابھی شادی کا موقع نہیں ملا ان میں سے 84 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ محبت کی وجہ سے ہی ایسا کریں گے۔ اگرچہ مختلف معاشروں میں یہ اوسط مختلف ہے لیکن رجعت پسند تصور کیے جانے والے خطوں میں بھی یہ رجحانات تیزی سے بدل رہے ہیں جو نہایت خوش آئند بات ہے۔

ہمارے عہد کا ایک اور اہم رجحان ڈیٹنگ کلچر ہے، جو شادی سے پہلے ایک سے زائد لوگوں کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا وسیع موقع فراہم کرتا ہے۔ مگر اس میں بھی پہلی چیز اعتماد اور وفاداری ہے۔آپ مذہبی، ثقافتی یا قانونی مجبوری کے تحت اپنے رشتے کو شادی کا نام دیں یا نہ دیں اصل چیز جذباتی وابستگی ہے۔ شدید جذباتی وابستگی جس کے بغیر شادی اور ڈیٹنگ دونوں بے رنگ ہو کر رہ جائیں۔ آج بھی محبت کا تند و تیز دریا اپنی پوری روانی سے بہتا اور اَن گنت زندگیاں سیراب کرتا چلا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔