پاکستانی نوجوان انتہا پسندی کی طرف مائل کیوں ہو رہے ہیں؟

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر ہونے والے پرتشدد حملوں میں حصہ لینے والے نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ اس کا سبب نوجوانوں میں جذباتی پختگی کی کمی ہے۔

پاکستانی نوجوان انتہا پسندی کی طرف مائل کیوں ہو رہے ہیں؟
پاکستانی نوجوان انتہا پسندی کی طرف مائل کیوں ہو رہے ہیں؟
user

Dw

پاکستانی صوبہ پنجاب کے قصبے جڑانوالہ میں گزشتہ ماہ مسیحی اقلیتی باشندوں پر مشتعل مسلمانوں کے ہجوم کے حملوں نے بہت سی زندگیاں تباہ کر دیں اور اس واقعے سے توجہ ایک بار پھر پاکستان میں توہین مذہب سے متعلق متنازعہ قوانین کی جانب چلی گئی۔

یہ تشدد اس وقت شروع ہوا جب مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے کچھ پھٹے ہوئے صفحات ایک مسیحی بستی کے قریب سے ملے۔ ان صفحات پر مبینہ طور پرکسی نے توہین آمیز جملے لکھ دیے تھے۔ مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات اکثر کسی بھی ہجوم کو تشدد پر اکسانے کا سبب بن جاتے ہیں۔


تاہم متاثرین، انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ ان حالیہ حملوں میں بہت بڑی تعداد میں لڑکوں اور نوجوان مردوں کی شرکت حیران کن اور غیر معمولی تھی۔ جڑانوالہ کے عیسیٰ نگری نامی علاقے میں رہنے والے 44 سالہ مسیحی شہری آصف محمود بتاتے ہیں، ''چودہ برس تک کی عمر کے لڑکے بھی مشتعل ہجوم میں شامل تھے۔ وہ گرجا گھروں پر حملے کر رہے تھے اور انہیں جلا رہے تھے۔ میرا اپنا گھر بھی لوٹ لیا گیا۔ حملہ آور دو بکریاں، ایک لیپ ٹاپ کمپیوٹر اور کچھ زیورات بھی لوٹ کر لے گئے۔‘‘

آصف محمود نے بتایا کہ ان حملہ آوروں میں 50 فیصد سے زیادہ افراد نوجوان اور نو عمر لڑکے تھے۔ ایک مقامی پولیس اہلکار نے بھی مشتعل ہجوم میں بڑی تعداد میں نوجوانوں کی موجودگی کا اعتراف کیا۔ اس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ''بالکل، یہ سچ ہے کہ بہت سے لڑکے اور نوجوانوں نے 16اگست کو مسیحیوں کی املاک اور گھروں کی توڑ پھوڑ میں حصہ لیا تھا۔‘‘


آصف محمود کے خیال میں نفرت اتنی زیادہ تھی کہ جنونی ہجوم نے ایسے مقامی مسیحی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا جہاں توہین مذہب کا کوئی مبینہ واقعہ پیش ہی نہیں آیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ حملہ آوروں کے ہجوم کی طرف سے لگائے گئے نفرت انگیز نعروں کو کبھی نہیں بھول پائیں گے۔

کچھ حملوں کے دوران نوجوان حملہ آور، جب وہ اقلیتوں کی املاک لوٹ رہے تھے، تو ساتھ ہی قہقہے بھی لگا رہے تھے۔ دماغی صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی حرکتوں میں ملوث افراد کا اندازہ ان کی اس حالت سے لگایا جاتا ہے جسے طبی اصطلاح میں 'کنڈکٹ ڈس آرڈر‘ کہا جاتا ہے۔ اسلام آباد کی ایک ماہر نفسیات ضوفشاں قریشی کا کہنا ہے کہ اس کی پہچان یہ ہے کہ متاثرہ شخص میں ہمدردی اور احساس ندامت کی کمی ہوتی ہے۔


انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ایسے واقعات میں سرکاری ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے، انسانوں یا جانوروں کو نقصان پہنچانے اور دوسروں کی املاک اور سامان کو تباہ کرنے کے نتیجے میں ہونے والی تکلیف سے ایسے اعمال کے مرتکب افراد کو طمانیت حاصل ہوتی ہے۔‘‘

اسلام آباد کے ایک ماہر نفسیات اور سماجی کارکن بشیر حسین شاہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ دسمبر 2021 میں پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں بھی سری لنکا کے ایک شہری کو مبینہ توہین مذہب کے الزام میں قتل کرنے کے مجرمانہ واقعے میں بھی بہت سے نوجوانوں نے حصہ لیا تھا۔ بشیر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ نوجوانوں نے اقلیتوں پر ہونے والے دیگر حملوں میں بھی حصہ لیا ہے اور حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں ان کی تعداد میں ڈرامائی طورپر اضافہ ہوا ہے۔


ضوفشاں قریشی کہتی ہیں کہ کئی بنیادی نفسیاتی عوامل ہیں، جو نوجوانوں کو کسی بھی مشتعل ہجوم کا حصہ بننے پر مائل کرتے ہیں۔ ادراک کی سطح پر اسے 'سیاہ اور سفید سوچ‘ کہا جاتا ہے، جوابتدائی نوعمری میں نمایاں ہوتی ہے۔ سائیکوتھیراپسٹ قریشی نے مزید بتایا کہ نوجوان نفسیاتی طورپر کافی پختہ نہیں ہوتے اور زندگی کا اتنا تجربہ نہیں رکھتے کہ وہ صحیح اور غلط کے مابین فیصلہ کر سکیں۔ انہوں نے کہا، ''اس عمر کے افراد کو کئی مختلف بنیادوں پر قانون ہاتھ میں لینے پر آمادہ کر لینا قدرے آسان ہوتا ہے۔‘‘

بہت سی مذہبی جماعتوں مثلاً تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف مائل کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ماہر نفسیات اور سماجی کارکن بشیر حسین شاہ کا کہنا تھا، ''ٹی ایل پی ہفتہ وار اجتماعات، ماہانہ مذہبی تقریبات اور مختلف مذہبی شخصیات کی سالگرہوں پر تقریبات کا انعقاد کرتی ہے، جو نوجوانوں اور نوعمر افراد کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ وہ ان پلیٹ فارمز کو نوجوانوں کو انتہا پسند بنانے کے لیے اور اقلیتوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔‘‘


بشیر حسین شاہ کہتے ہیں کہ لاکھوں لوگوں نے ٹی ایل پی کے مرحوم سربراہ خادم رضوی اور موجودہ سربراہ سعد رضوی کی شعلہ بیانی والی تقریریں سنی ہیں۔ ''وہ ایکس اور فیس بک پر جو مواد پوسٹ کرتے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نوجوانوں کو انتہا پسند بنانے کے لیے بھی ان پلیٹ فارمز کا استعمال کر رہے ہیں۔ مذہبی جماعتیں جانتی ہیں کہ نوجوانوں کے پاس لڑنے کی طاقت ہوتی ہے۔ ہم نے خود کئی بار اس امر کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ اس لیے ایسے گروپ نوجوانوں کی اس طاقت کو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ان کے اہلکاروں کو دھمکیاں دینے کے لیے بھی استعمال میں لاتے ہیں۔‘‘

پاکستان کی ایک غیر سرکاری اور غیر منافع بخش تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سابق سربراہ زہرہ یوسف کا خیال ہے کہ یہ ایک انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے اور اس کے ملک پر اثرات و نتائج اتنے زیادہ ہو سکتے ہیں کہ ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔


انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ نوجوان ذہنوں کو مذہبی اقلیتوں کے خلاف عدم رواداری اور عدم برداشت کی تربیت دی جا رہی ہے۔ پاکستان میں ہجوم اکٹھا کر لینا بہت آسان ہے۔ اس کے لیے تو کسی مسجد سے صرف ایک اعلان کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔