فرانس میں صدارتی انتخابات: آپ کو کیا کچھ معلوم ہونا چاہیے؟

فرانس میں آج صدارتی انتخابات کا آغاز ہو رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے اس راؤنڈ اپ میں جانیے کہ فرانسیسی الیکشن میں صدارتی امیدوار اور اہم موضوعات کونسے ہیں؟ ووٹنگ کا طریقہ کار کیا ہے؟

فرانس میں صدارتی انتخابات: آپ کو کیا کچھ معلوم ہونا چاہیے؟
فرانس میں صدارتی انتخابات: آپ کو کیا کچھ معلوم ہونا چاہیے؟
user

Dw

فرانس میں صدارتی انتخابی مہم جمعہ آٹھ اپریل کی شب مکمل ہو چکی۔ اتوار دس اپریل یعنی آج سے شروع ہونے والی ووٹنگ سے اس بات کا تعین ہوگا کہ یورپی یونین کی دوسری سب سے بڑی معیشت اور یورپی بلاک میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے واحد مستقل رکن ملک کی سربراہی آئندہ کون کرے گا۔

ووٹنگ کا طریقہ کار کیا؟

ہر پانچ سال بعد فرانس میں ووٹ دینے کے حق دار شہری ملکی صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ فرانس میں ووٹ پیپر بیلٹ کے ذریعے ڈالا جاتا ہے اور ووٹوں کی گنتی بھی روایتی طریقے سے کی جاتی ہے۔ کئی نسلوں سے ووٹنگ کا یہی نظام مستعمل ہے۔


فرانس میں کووڈ انیس کی وبا کے باعث عائد تمام پابندیاں ختم ہونے کے بعد وائرس سے متاثرہ افراد بھی پولنگ اسٹیشنوں میں ووٹ دینے جا سکتے ہیں، مگر انہیں ماسک پہننے جیسی حفاظتی تدابیر پر لازمی عمل کرنا ہوگا۔

اتوار کے روز ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں ووٹرز 12 امیدواروں میں سے کسی کا انتخاب کریں گے۔ اگر کسی بھی امیدوار کو واضح اکثریت نہ ملی تو پھر دو سرفہرست انتخابی امیدوار 24 اپریل کو ہونے والی دوسرے مرحلے کی رائے دہی میں آمنے سامنے ہوں گے۔


اہم امیدوار کون سے؟

فرانس کے اعتدال پسند صدر ایمانوئل ماکروں ان انتخابات میں دوبارہ امیدوار ہیں۔ ماکروں کا موجودہ دور اقتدار اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے۔ سن 2018 میں نام نہاد 'ییلو ویسٹ‘ احتجاجی تحریک کا جنم ماکروں کی کاروبار دوست پالیسیوں اور امیروں کے لیے ٹیکسوں میں کٹوتی کے نتیجے میں ہوا۔ اپنے دور اقتدار کے اختتامی مرحلے کے دوران بھی انہیں رائے عامہ کے جائزوں میں برتری حاصل ہے۔

دو ہفتے قبل تک ماکروں نے روایتی انتخابی مہم پر توجہ دینے کے بجائے نمایاں طور پر روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کو رکوانے کے لیے سفارتی کوششوں کو ترجیح دے رکھی تھی۔ ماکروں کے برعکس خاتون حریف مارین لے پین ملک میں مہنگائی اور آمدنی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کئی مہینوں سے انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔


رائے عامہ کے جائزوں میں دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی کی رہنما مارین لے پین صدر ماکروں کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ سیاسی ماہرین کے مطابق یہ دونوں رہنما صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔ لے پین کو تاہم سن 2017 کے انتخابات کے دوران یورپی یونین اور نیٹو کی مخالفت کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسی دوران لے پین نے فرانس میں مسلمانوں کی مہاجرت کے بارے میں خوف کی سیاست کا پرچار کیا تھا۔ لیکن اس مرتبہ ایرک زیمور کی وجہ سے ان کا عوامیت پسندانہ رویہ کافی نرم دکھائی دے رہا ہے۔

سابق سیاسی تجزیہ نگار اور انتہائی دائیں بازو کے نظریے کے حامل زیمور اپنی نسل پرستانہ اور نفرت انگریز تقاریر کے نتیجے میں سزائیں بھگت چکے ہیں۔ وہ لاکھوں غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے سفید فام نسل پرستی اور نیو نازی نظریات کو بھی فروغ دیا ہے۔


رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق زیمور اتوار کے ہونے والی پولنگ میں 10 فیصد تک عوامی حمایت حاصل کر سکتے ہیں، جوکہ بائیں بازو کے ایک عوامیت پسند سیاستدان ژاں لُک میلونشوں کے بعد چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ ہوں گے۔ میلونشوں کو 16 فیصد تک ووٹ ملنے کا امکان ہے۔ ان کی انتخابی مہم شفاف توانائی میں سرمایہ کاری اور امیروں پر زیادہ ٹیکس لگانے پر مرکوز ہے۔

اس کے علاوہ صدارتی عہدے کے لیے انتخابی امیدواروں میں دائیں بازو کے ریپبلکنز کی امیدوار ولیری پریکریس کے ساتھ ساتھ پیرس کی میئر اور سوشلسٹ پارٹی کی امیدوار آنے ہیڈالگو شامل ہیں۔


صدارتی الیکشن میں اہم موضوعات کون سے؟

یوکرین کی جنگ میں فرانس کا ردعمل، دو سال سے کورونا کی عالمی وبا کے نتیجے میں صحت عامہ کے نظام پر بڑھنے والا دباؤ اور معاشی معاملات فرانسیسی ووٹروں کے لیے اہم ترین موضوعات ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ تر انتخابی امیدواروں نے توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے سے نمٹنے کی حکمت عملی کو بھی اپنی انتخابی مہم کا محور بنا رکھا ہے۔

نتائج کب تک؟

اتوار دس اپریل یعنی آج مقامی وقت کے مطابق شام آٹھ بجے پولنگ ختم ہونے کے بعد پہلے مرحلے کے انتخابی نتائج سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ کوئی بھی انتخابی امیدوار پہلے راؤنڈ میں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے یہ الیکشن جیت سکتا ہے۔ تاہم فرانس کی تاریخ میں ایسے نتائج کی مثال نہیں ملتی۔ دو سرفہرست امیدوار 24 اپریل کو ہونے والے صدارتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کی رائے دہی میں آمنے سامنے ہوں گے اور حتمی فاتح پھر انہی دو میں سے کوئی ایک امیدوار ہو گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔