مسجد اقصیٰ تنازع: سلامتی کونسل کا کسی کارروائی سے گریز

ایک اسرائیلی وزیر کے مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہونے سے پیدا شدہ تنازع پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنے ہنگامی اجلاس میں صورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے پر زور دیا۔

مسجد اقصیٰ تنازع: سلامتی کونسل کا کسی کارروائی سے گریز
مسجد اقصیٰ تنازع: سلامتی کونسل کا کسی کارروائی سے گریز
user

Dw

اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے رہنما اور سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر گزشتہ ہفتے مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوگئے تھے، جسے فلسطینی رہنماوں نے "غیر معمولی اشتعال انگیز اقدام" قرار دیا تھا اور مسلم ملکوں کے علاوہ دنیا کے دیگر ملکوں نے بھی اس کی مذمت کی تھی۔

چین اور متحدہ عرب امارات نے اس واقعے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔ جمعرات کے روز ہنگامی اجلاس میں سلامتی کونسل نے مسجد اقصیٰ کی صورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے پر زور دیا تاہم اس نے اسرائیلی رہنما اتمار بین گویر کے متنازعہ اقدام کے حوالے سے کسی طرح کی کارروائی کرنے سے گریز کیا۔


مسجد اقصیٰ، مکہ مکرمہ کے مسجد حرام اور مدینہ منورہ کی مسجد نبوی کے بعد مسلمانو ں کے لیے تیسرا سب سے مقدس مقام سمجھا جاتا ہے۔

دہائیوں سے مسجد اقصیٰ میں صرف مسلمانوں کو ہی داخلے کی اجازت ہے۔ حالانکہ یہودی بھی اسے اپنے لیے مقدس سمجھتے ہیں۔ وہ اسے ٹمپل ماونٹ کہتے ہیں۔ اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے گروپ طویل عرصے سے اس کے 'اسٹیٹس کو' کو تبدیل کرنے اور وہاں یہودیوں کے لیے بھی عبادت کرنے کی اجازت کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ انتہائی دائیں بازو کے یہودی مسجد اقصیٰ کی جگہ پر ایک یہودی کنیسا کی تعمیر کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں۔


فلسطین کا مطالبہ

فلسطینی سفیر ریاض منصور نے بین گویر کی اشتعال انگیز حرکتوں کے تناظر میں سلامتی کونسل سے اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا، "سلامتی کونسل آخر اسرئیل کی طرف سے کس حد کو پار کرنے کا انتظار کر رہا ہے، اب تو انتہا ہو چکی ہے۔" انہوں نے اسرائیل پر سلامتی کونسل کے تئیں " مکمل توہین" کا مظاہرہ کرنے کا الزام بھی لگایا۔

فلسطینی سفیر نے کونسل کی جانب سے کسی طرح کی کارروائی نہیں کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا اور متنبہ کیا کہ اس سے صورت حال قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیاسی امور کے ایک سینیئر اہلکار خالد خیری نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سن 2017 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب کوئی اسرائیلی وزیر مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوا۔


انہوں نے کہا، "گوکہ ان کے دورے کے بعد کسی طرح کا تشدد نہیں ہوا لیکن اسٹیٹس کو میں تبدیلی کے حوالے سے بین گویر کے سابقہ بیانات کے تناظر میں اسے اشتعال انگیز حرکت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔"

اسرائیل کا ردعمل

سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس سے قبل اسرائیلی نمائندے گیلاد اردان نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس میٹنگ کی قطعی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ انہوں نے کہا، "سلامتی کونسل کا اس طرح کا اجلاس طلب کرنا حقیقتاً مضحکہ خیز ہے۔"


اردان کا کہنا تھا کہ بین گویر کا دورہ "حالات کو جوں کا توں برقرار رکھنے کے ضابطے عین مطابق تھا اور جو کوئی بھی اس کے برخلاف دعویٰ کر رہا ہے وہ صورت حال کو صرف خراب کر رہا ہے۔" انہوں نے مزید کہا، "صرف ایک مختصر اور قانون کے عین مطابق دورے کی وجہ سے سلامتی کونسل کا ہنگامی میٹنگ کرنا افسوس ناک ہے۔"

دیگر ملکوں نے کیا کہا؟

امریکہ، جو اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے دو ریاستی حل کی وکالت کرتا ہے، نے کہا کہ "وہ کسی بھی ایسی یک طرفہ کارروائی سے فکر مند ہے جس سے حالات مزید خراب ہونے اور دو ریاستی حل کے امکانات کے نظر انداز ہونے کا خدشہ ہو۔"


امریکی سفیر رابرٹ ووڈ کا کہنا تھا، "ہمیں معلوم ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم مقدس مقامات کے حوالے سے اسٹیس کو برقرارکھنے کی اپیل کرتے رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ اسرائیل اپنے وعدوں پر قائم رہے گا۔ "

اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے والے مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات نے بھی بین گویر کے اقدام کی مذمت کی۔ اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کا خواہش مند سعودی عرب نے بھی بین گویر کی نکتہ چینی کی ہے۔ جب کہ حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تلخیاں ختم کرنے والے ترکی نے بھی بین گویر کے دورے کی مذمت کی اور اسے اشتعال انگیز قرار دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔