اقوام متحدہ کا ایرانی خاتون کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ

انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی قائم مقام ہائی کمشنر نے ایرانی حکام سے کہا ہے کہ عوامی مقامات پر ایرانی خواتین کے ملبوسات پر پولیس کی پہرے داری کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ کا ایرانی خاتون کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ
اقوام متحدہ کا ایرانی خاتون کی موت کی تحقیقات کا مطالبہ
user

Dw

اقوام متحدہ کی ایک اعلیٰ اہلکار نے اس نوجوان ایرانی خاتون کی موت کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، جو ملک کی متنازع اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاک ہو گئی تھیں۔

مغربی ایران میں ساقیز سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی گزشتہ ہفتے ایک پولیس اسٹیشن میں اس وقت گر گئی تھیں، جب ایران کی اخلاقی پولیس نے انہیں حراست میں لیا تھا۔ اخلاقی پولیس خواتین کے لباس سے متعلق سخت ضوابط کا نفاذ کرتی ہے۔


مہسا امینی کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ قانون نافذ کرنے والے افسروں نے دوران حراست ان کے ساتھ بدسلوکی بھی کی تھی۔ اقوام متحدہ نے بھی اب اس معاملے کی آزادانہ تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔

اقوام متحدہ میں انسانی حقوق سے متعلق قائم مقام ہائی کمشنر ندا الناشف نے کہا، ''مہسا امینی کی المناک موت، ان پر تشدد اور ان کے ساتھ ناروا سلوک جیسے الزامات کی فوری، غیر جانبدارانہ اور مؤثر طریقے سے ایک ایسی آزاد اتھارٹی کے ذریعے تحقیقات ہونی چاہیے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ ان کے خاندان کو انصاف اور سچائی تک رسائی حاصل ہو۔''


ندا الناشف نے مزید کہا، ''حکام کو چاہیے کہ جو خواتین حجاب کے قوانین کی پابندی نہیں کرتیں، ایسی عورتوں کو ہراساں کرنا یا پھر انہیں گرفتار کرنا بند کر دیں۔'' ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اتوار کے روز مہسا امینی کے اہل خانہ سے بات کی تھی اور ان کی موت کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

مزید فوٹیج جاری کرنے کا مطالبہ

پولیس کی حراست میں ہلاکت کے اس واقعے نے تہران سمیت ملک بھر میں غم و غصے اور احتجاج کی لہر کو جنم دیا ہے۔ مظاہروں کے دوران سکیورٹی فورسز کی فائرنگ میں بعض افراد کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں۔


جمعے کے روز حکام نے سکیورٹی کیمرے کی فوٹیج جاری کی تھی جس میں مہسا امینی کو پولیس اسٹیشن کے اندر گرنے سے پہلے اپنے کپڑوں کے بارے میں ایک دوسری خاتون سے بحث کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئیں۔ لیکن ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں دلی کی ایسی کسی بیماری کی کوئی شکایت کبھی نہیں تھی۔ رشتہ داروں نے بتایا ہے کہ بعض عینی شاہدین نے پولیس کار کے اندر انہیں پھینکتے ہوئے دیکھا تھا۔

مہسا امینی کے والد امجد امینی نے ایک مقامی نیوز ویب سائٹ کو بتایا، ''میں نے گاڑی کے اندر موجود کیمروں اور پولیس اسٹیشن کے صحن سے بنائی گئی (ویڈیوز) تک رسائی مانگی ہے، تاہم انہوں نے اس کا ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔''


لازمی حجاب کی مخالفت

ایران میں سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے خواتین کے لیے حجاب لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ملک کی اخلاقی پولیس پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ دیگر مذہبی پابندیوں کے ساتھ وہ اس کا بھی سختی سے نفاذ کرواتی ہے۔ حالیہ برسوں اس پولیس فورس پر، خاص طور پر نوجوان خواتین کے ساتھ اس کے سلوک کی وجہ سے۔ تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔

لاکھوں ایرانی خواتین حجاب سے متعلق ان قوانین کی مخالفت کرتی ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس کے خلاف مظاہرے بھی تیز ہوئے ہیں اور اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔


بہت سی ایرانی خواتین اپنے اسکارف کو تھوڑا ڈھیلے طریقے سے پہنتی ہیں اور گرفتار ہونے کے خطرے کے مدنظر اسے اپنے شانوں پر گرنے بھی دیتی ہیں۔ تاہم نئے صدر ابراہیم رئیسی کی قیادت میں حکومت اور پارلیمنٹ میں مذہبی سخت گیر کئی مہینوں سے اسلامی قوانین کو مزید سختی سے نافذ کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔

انٹرنیٹ پر اس وقت متعدد ایسی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں، جن میں خواتین کو گرفتاریوں کے دوران حکام کی طرف سے مارنے پیٹنے اور بدسلوکی کرنے جیسے واقعات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس سے متعلق ویڈیوز میں اکثر خواتین کو پولیس کی گاڑی کے اندر ان کے بالوں کو پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے اور سر پر پُرتشدد ضربیں لگاتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔


ایران کو احتجاج کی اجازت دینی چاہیے

مہسا امینی کی موت اور اس کے نتیجے میں عالمی ردعمل ایک ایسے وقت سامنے آئی جب امریکہ اور دیگر طاقتیں سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش میں ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ امینی کو آج زندہ ہونا چاہیے تھا، تاہم، ''اس کے بجائے، امریکہ اور ایرانی عوام ان کی موت پر ماتم کر رہے ہیں۔''

انہوں نے منگل کے روز اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''ہم ایرانی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ خواتین کے خلاف ظلم و ستم کے اپنے نظام کو ختم کرے اور پرامن احتجاج کی بھی اجازت دے۔''

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔