انٹرنیٹ 'مجاہدین‘ سرخرو

ہمارے معاشرے میں ایسے خاص شہریوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جو آن لائن کسی کی کردار کشی اور لوگوں کی ذاتی زندگی پر منفی رائے دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ یہ انٹرنیٹ 'مجاہدین‘ ہیں۔

انٹرنیٹ 'مجاہدین‘ سرخرو
انٹرنیٹ 'مجاہدین‘ سرخرو
user

Dw

والدین کی عظمت اور مردوعورت دونوں کے ايثار اور قربانی پر تو اکثر لکھا جاتا ہے۔ ایک عورت جہاں بیٹی، بہن، بیوی، بہو اور ماں کے روپ میں لاتعداد قربانیاں دیتی ہے اور اپنا مثبت کردار ادا کرتی ہے وہیں مرد بھی بیٹے، بھائی، باپ اور شوہر کے کردار میں اپنا آپا مٹا دینے کی حد تک ساری زندگی دوسروں کے آرام کے لیے اپنی ذمہ داریاں نبھاتا نظر آتا ہے۔ جہاں حقوق نسواں کے لیے آواز اٹھانا ضروری ہے وہیں مرد کی تمام عمر انتھک محنت پر ستائش بھی لازم ہے۔

اس سب کے برعکس آج میں نے قلم ایک اور مخلوق کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اٹھایا ہے۔ یہ وہ خاص لوگ ہیں جو اپنا دن رات ایک کر دیتے ہیں صرف اور صرف دوسروں کی اصلاح کے لیے۔ ہر روز وہ بہت سے لوگوں کو اسلام کے دائرے سے خارج کرتے ہیں، لاتعداد لوگوں کو آخرت یاد دلاتے ہیں، ایک ایک سلیبریٹی کی ذاتی زندگی پر رائے دیتے ہیں۔ ہر نامناسب مواد پر گہری نظر رکھتے ہیں اور بغور دیکھ کر جہنم کی یاد دلاتے ہیں اور یہ معاشرہ ان کو سراہاتا ہی نہیں؟ کوئی ان کے حق میں آواز نہیں اٹھاتا، جو اپنے مال و معاش کیا نماز روزے کی فکر چھوڑ کر اپنا تمام تر وقت دوسروں کو دے رہے ہیں۔ دوسرے بھی وہ جنہیں وہ ذاتی طور پر نہیں جانتے اور زیادہ تر مکمل خبر اور معلومات سے نابلد ہوتے ہوئے بھی کھلے دل سے مکمل تجزیے فراہم کرتے ہیں اور حق وباطل کا فیصلہ بھی سنا دیتے ہیں۔ یہ عظیم لوگ "انٹریٹ مجاہدین" ہیں۔


ویسے تو کوئی بھی ان کی عقابی نظروں اور ماہرانہ رائے سے بچ نہیں پایا مگر عورت کے لباس اور کردار پر فتوے دینے کے لیے یہ لوگ جتنی محنت اور وقت صرف کرتے ہیں اس کی مثال شاید تاریخ کی کسی کتاب میں بھی ڈھونڈنا مشکل ہے۔ اگر کوئی اداکارہ، ماڈل یا گلوکارہ کسی ہراسگی کا مقدمہ کرے تو اس کو جھوٹا قرار دینے کے لیے اپنا دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ ان مجاہدین کے مطابق ایسا کرنا درست بھی ہے کیونکہ آج تک دنیا میں کیا کسی عورت کو ہراساں کیا گیا ہے؟ یہ تو صرف من گھڑت کہانیاں ہیں، جو میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ بیچارے دن رات ایک کرتے ہوئے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک سالوں پرانی تصاویر وائرل کر کے جب تک عوام کو پوری طرح آمادہ نہ کر لیں کہ ہر تصویر میں پہنا گیا لباس اور دیکھی جانی والی تقریب اس کی گواہی ہے کہ اس عورت کا ہی کردار برا ہے اور ظاہر ہے کہ اس مقدمے میں بھی مرد ہی مظلوم ہے۔

یوں تو سیاست اور اپنی اپنی پارٹی کی اندھی تقلید بھی کافی جوش و خروش سے کی جاتی ہے اور مخالف پارٹی کے لیڈر کو تمام خاندان سمیت غیر ملکی ایجنٹ اور کافر تک قرار دے دیا جاتا ہے، مگر عورت مارچ سب سے پسندیدہ موضوع ہے اور حقوق نسواں کے خلاف بولتے ہی یہ مخلوق ایک الگ درجے پر فائز ہو جاتی ہے۔ اس سال اس مارچ پر پابندی گویا ان کے لیے کسی عید سے کم نہیں تھی۔ اس پابندی کی خبر پر ان مجاہدین کے کمنٹس پڑھ کر خاص تقویت ملی کہ آخر انہیں بھی کوئی خوشی نصیب ہوئی اور وہ اپنے مقصد میں سرخرو ہو پائے۔


بھلا ہو ان گنے چنے لوگوں کا جو عورت مارچ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اصل مسائل اور ناانصافی ان خرافات میں دب کے رہ جاتی ہے۔ اصل مقصد کو دبانے میں بھی یہی مجاہدین ایک دفعہ پھر ہر محاذ پر ڈٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جیسے ہی کسی نے جنسی زیادتی، تیزاب سے حملے، کم عمری يا زبردستی شادی یا قتل کے اعداد و شمار کی بات کی وہیں یہ مجاہدین ساری کی ساری خبر کو مغربی پروپیگنڈا، ٹرانس جینڈر مہم اور طلاق یافتہ آنٹیوں کی غیر اسلامی آزادی کی کوشش کا نام دے کر فورا دباتے نظر آئیں گے اور چند منٹوں میں ایک پوری فوج اس مقصد کو مزید فروغ دینے کے لیے بوتل کے جن کی طرح حاضر ہو جائے گی۔

افغانستان سے لے کر ایران تک خواتین پر ہونے والے مظالم کو حقیقی دین کا نام دے کر ان ملکوں کو مبارکباد کے کمنٹس عام نظر آتے ہیں اور دعا کی جاتی ہے کہ کاش کبھی پاکستان بھی اس مقام پر پہنچے۔ ان پابندیوں کے خلاف مظاہروں پر طالبان کا سخت ردعمل بھی خوب سراہا جاتا ہے۔ اپنے ملک میں جو خواتین قتل ہو جائیں ان کا قصور عوام کو باور کروانا تو بہرحال فرض ہی سمجھا جاتا ہے مگر اگر کوئی زندہ بچ جائے تو بھی فیصلے کا اختیار مجاہدین اپنے پاس ہی رکھتے ہیں۔ گزشتہ سال دعا زہرہ نامی بچی جسے انسانی اسمگلنگ کے لیے اغواء کیا گیا اور ایسا عدالت میں ثابت ہونے کے بعد بھی یہ مجاہدین ماننے کو تیار نہیں۔ ہر تشدد اور زیادتی کی خبر کے نیچے بے دھڑک 'یہ جھوٹ بول رہی ہے' لکھنے والے اس کیس میں بضد رہے کہ بچی گھر سے بھاگ گئی ہے۔ والدین غم سے نڈھال تھے مگر ان سب مجاہدین نے بڑھ چڑھ کر ویڈیوز اور تجزیے وائرل کیے اور عوام کو یقین دہانی کروائی کہ اب یہ کیس ان کے محفوظ ہاتھوں و میں ہے اور وہ ہار نہیں مانیں گے۔ ایسا جذبہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان مجاہدین کی فوج میں بہت سی خواتین بھی شامل ہیں اور نیکیاں بانٹتی نظر آتی ہیں۔


انہیں کافی حد تک الہام بھی ہو جاتا ہے، جس کی بنیاد پر وہ تبصرے اور بحث کر سکتے ہیں۔ اس الہام کی بدولت انہیں خبروں کی تفصیلات پڑھنے کی ضرورت نہیں پڑتی، آرٹیکل اور کالم وغيره کے عنوان کے ساتھ شائع کی گئی ایک ہی سطر کافی ہوتی ہے اور پوری تحریر پڑھنے سے بچ جاتے ہیں۔

یہ مجاہدین جانتے ہیں کہ زمین پر فساد پھیلانا گناہ ہے اس لیے وہ یہ کام صرف اسکرین پر کرتے ہیں۔ ایک ایک ڈرامے اور گانے کی ویڈیو پر جتنی لگن سے وہ مذہب کا پر چار کرتے ہیں، اتنی ہی لگن سے وہ ہر دوسری لڑکی کی تصاویر پر "نائس پک ڈیئر" کمنٹ کرتے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس تبلیغ کی کوئی حد نہیں ہے، چاہے انہیں جتنی مرضی لڑکیوں کو فرینڈ ریکوسٹ بھیجنی پڑے وہ ان کی اصلاح کرنے اور انہیں راہ راست پر لانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ ان خدمات کو چاہے کوئی نہ سراہے مگر ان کی کوشش رائیگاں نہیں جا رہی اور ان مجاہدین کی فوج دن بدن بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔