انسانی حقوق کے مقید چینی کارکنوں کی بیویوں کی جدوجہد

چین میں حکومتی کریک ڈاؤن کا نشانہ بننے والے بہت سے مردوں کی بیویوں نے بیجنگ حکومت کی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان خواتین نے ڈی ڈبلیو کو اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔

انسانی حقوق کے مقید چینی کارکنوں کی بیویوں کی جدوجہد
انسانی حقوق کے مقید چینی کارکنوں کی بیویوں کی جدوجہد
user

Dw

2012 ء میں چینی صدر شی جن پنگ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ملکی حکام نے جن گروپوں پر سب سے زیادہ ظلم و ستم ڈھائے، ان میں سے ایک گروپ انسانی حقوق کے کارکنوں اور وکلاء کا بھی تھا۔ 2015ء میں بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کے دوران ملک بھر سے ایسے 300 سے زیادہ وکلاء کو گرفتار کیا گیا۔ بہت سے اب بھی حراست میں ہیں، انہیں طویل قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔

انسانی حقوق کے وکلاء کے خلاف برسوں سے جاری ملک گیر کریک ڈاؤن کے باعث ان کے اہل خانہ خاص طور پر ان کی بیویوں کو حادثاتی طور پر انسانی حقوق کے محافظ بننا پڑا۔ وہ سوشل میڈیا پر اور اپنے میڈیا انٹرویوز میں بھی چینی حکومت کی طرف سے زیادتیوں کے خلاف بولنے لگیں۔


انہوں نے اپنے شوہروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تفصیلات غیر ملکی اراکین پارلیمان اور سفارت کاروں کے ساتھ شیئر کرتے ہوئے حکام کو جواب دہ بنانے کی کوشش کی۔

اپنے شوہروں کے بنیادی انسانی حقوق کا دفاع کرنے والی ان خواتین نے مجبوراﹰ خود اپنی زندگیوں کو بھی مشکل بنا لیا۔ سوفی لیو ایک انجینئر اور انسانی حقوق کے ایک چینی وکیل ڈنگ جیاکسی کی اہلیہ ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''میں اب اس دوسرے کیریئر کو برباد نہیں کرنا چاہتی کیونکہ میں اب انسانی حقوق کے دفاع کے عمل کے دوران خود بھی بے شمار ناانصافیوں کا مشاہدہ کر رہی ہوں۔‘‘ سوفی لیو کا مزید کہنا تھا، ''یہ ناانصافی مجھے ان ذمہ داریوں کی یاد دلاتی ہے، جو ایک آزاد ملک میں رہنے والے انسان کے طور پر مجھ پر عائد ہوتی ہیں۔ میں ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتی ہوں: ایک جگہ ہونے والی ناانصافی دنیا بھر میں ہونے والی ناانصافی ہے۔ یہ میری اپنی پسند ہے اور ان تجربات نے میری زندگی کو تقویت دی ہے اور میرے نقطہ نظر کو وسیع کیا ہے۔‘‘ سوفی لیو اب امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔


'بیجنگ غلطی پر‘

ڈنگ اور انسانی حقوق کے ایک درجن سے زیادہ دیگر چینی کارکنوں کو دسمبر 2019 ء میں زیامن شہر میں ایک نجی اجتماع میں، جہاں انہوں نے مبینہ طور پر انسانی حقوق کے مسائل اور ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز تحریک پر تبادلہ خیال کیا تھا، حصہ لینے کے بعد ملک گیر کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد مبینہ طور پر لیو کے شوہر کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور کئی مواقع پر انہیں ان کے وکیل سے ملنے سے بھی روک دیا گیا۔ وہ تین سال سے زائد عرصے سے حراست میں ہیں۔ چینی عدلیہ نے اب تک انہیں کوئی سزا نہیں سنائی۔ اس رویے نے سوفی لیو کو اپنے شوہر کی ان کے بقول 'غیر قانونی حراست‘ کو چیلنج کرنے کے لیے مختلف راستے اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔

سوفی لیو واحد خاتون نہیں ہیں جو اپنے زیر حراست شوہر کی وکالت کر رہی ہیں۔ ان کی طرح انسانی حقوق کے زیر حراست چینی وکیل چانگ ویپنگ کی اہلیہ زیجوان چن اور زیر حراست چینی این جی او ورکر چینگ یوآن کی اہلیہ مینڈی شی کو بھی چین میں مقامی حکام کی طرف سے بار بار دھمکیوں اور ہراساں کیے جانے کے بعد امریکہ میں جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔


دوران جلاوطنی خاندان کی تعمیر

چینی حکام کے دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے انسانی حقوق کے کئی وکلاء کی بیویاں لیو، چن اور شی کے نقش قدم پر چل کر امریکہ پہنچی ہیں۔ ان میں سے بہت سی خواتین کہتی ہیں کہ جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ ایک غیر ملک میں بسنے کی کوشش کرتی ہیں، تو انہیں اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے بہت سے چیلنجوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور یوں ان سب کے درمیان ایک گہرا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔

لیو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اب چونکہ وہ کئی خواتین یہاں امریکہ میں ہیں، ہم مل کر کام کر سکتے ہیں، سگی بہنوں کی طرح بات کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم ایک خاندان کی طرح ہیں، اور یہ دوستی ایک حقیقی خاندان سے بھی زیادہ قربت والی دوستی ہے۔‘‘


چن نے مزید کہا کہ چونکہ انسانی حقوق کے چینی کارکنوں کے خاندان کے افراد بھی اسی طرح کے تجربات سے گزرتے ہیں، اس لیے وہ اکثر دیگر کارکنوں کی بیویوں کو اپنے جذبات کے اظہار یا نئی موصول ہونے والی خبروں کے تبادلے کے لیے فون کرتی ہیں۔ ''یہ بہت اچھا تعاون ہے۔‘‘ انہوں نے کہا، ''ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ ہم صرف اپنے شوہروں سے محبت کی وجہ سے ان کا دفاع نہیں کر رہیں بلکہ ان کے دفاع کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی بتانا چاہتی ہیں کہ ہم اب چینی حکومت کے مظالم کو برداشت نہیں کر سکتیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔