محبت کی نشانی تاج محل میں ہر طرف ویرانی ہی ویرانی، کیا ہوگا ٹور گائڈزاور ٹورآپریٹرس کا!

عجائبات عالم میں شامل تاج محل میں بالعموم سیاحوں کا ہجوم رہتا تھا لیکن کورونا وائرس کی وبا کے سبب ان دنوں تقریباً ویران پڑا ہوا ہے۔

محبت کی نشانی تاج محل میں ہر طرف ویرانی ہی ویرانی
محبت کی نشانی تاج محل میں ہر طرف ویرانی ہی ویرانی
user

Dw

ٹور گائیڈ کرشنا راٹھور مغل بادشاہ شاہ جہاں کی طرف سے اپنی بیوی کی یاد میں سترہویں صدی میں تعمیر کردہ تاج محل کی پرشکوہ عمارت کو ان دنوں خالی نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں۔ حالانکہ کووڈ کی دوسری لہر کے بعد بھارت میں کورونا کے کیسز میں مسلسل کمی آرہی ہے اور لاک ڈاؤن میں نرمی بھی کی جا رہی ہے لیکن محبت کی اس یادگار کو دیکھنے کے لیے سیاحوں کی آمد کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا ہے۔

انتیس سالہ راٹھور ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بڑے مایوس لہجے میں کہتے ہیں ”میں پچھلے کئی دنوں سے ہر روز صبح یہاں آتا ہوں۔ اس امید میں کہ شاید تاج محل دیکھنے والے کچھ لوگ یہاں آئے ہوں اور میں چند پیسے کما سکوں۔ لیکن مجھے ہر روز مایوس گھر لوٹنا پڑتا ہے۔"


راٹھور سے قبل ان کے والد اور ان کے دادا بھی بطور ٹور گائیڈ ہی کام کیا کرتے تھے۔ راٹھور نے چار برس قبل ٹور گائیڈ کا کام شرو ع کیا تھا لیکن کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے بھارت کی سیاحت کی صنعت کو جس طرح نقصان پہنچا ہے اس کے مدنظر وہ کوئی دوسرا پیشہ اپنانے پر غور کر رہے ہیں۔

تاج محل کودیکھنے کے لیے ہر برس تقریباً ستر سے اسی لاکھ کے سیاح آگرہ آتے ہیں۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 2019 ء میں کم از کم سات لاکھ 37 ہزار غیر ملکی سیاح تاج محل دیکھنے آئے تھے۔ لیکن پچھلے پندرہ ماہ کے دوران، صرف ایک مختصر وقفے کو چھوڑ کر، بیشتر اوقات یہ تاریخی یادگار بند رہی۔ جس کی وجہ سے راٹھور جیسے تقریباً ڈھائی ہزار رجسٹرڈ ٹور گائیڈز کے سامنے روزی روٹی کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔


تباہ حال ٹورزم انڈسٹری

تاج محل میں ٹورگائیڈ کا کام کرنے والے بیشتر افراد ان دنوں غیر یقینی مستقبل سے دوچار ہیں۔ پچھلے سات برسوں سے ٹور گائیڈ کا کام کرنے والے رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ”میں نے اب آگرہ میں کچھ چھوٹے موٹے کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور بعض اوقات میں یومیہ مزدوری کے لیے آگرہ سے باہر بھی چلا جاتا ہوں۔ ٹور گائیڈ کا میرا کام تقریباً ختم ہو چکا ہے۔"

کرشنا راٹھور کے والد اور مارکیٹ ایسوسی ایشن کے صدر امر سنگھ راٹھور کا خیال ہے کہ لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد بھی ٹورزم انڈسٹری کو معمول پر واپس آنے میں کم سے کم دو برس لگ جائیں گے۔


انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”اس وبا نے سیاحت کی صنعت اور ہمارے ذریعہ معاش کو تباہ کر دیا ہے۔ لیکن اس غیر معمولی صورت حال کے باوجود ہمیں حکومت کی طرف سے کسی طرح کی مالی مدد نہیں ملی۔ حکومت کو کم سے کم دکانوں کے کرائے اور بجلی کے چارجز معاف کردینے چاہییں۔"

ہوٹل صنعت بھی مشکلات سے دوچار

ہوٹل اور ریستورانوں میں کام کرنے والے اور ٹور آپریٹروں کو بھی اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے۔ آگرہ میں ایک درجن سے زائد فائیو اسٹار اور چار سو کے قریب بجٹ ہوٹل ہیں۔ جن میں تقریباً چار لاکھ افراد مختلف شعبوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ حکام کے مطابق پانچ سے سات لاکھ کے درمیان افراد سیاحت سیکٹر سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر وابستہ ہیں۔


تاج محل کے بند ہو جانے سے دست کاری کے سامان فروخت کرنے والے چھوٹے تاجروں اور دکانداروں کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پردیپ کمار نامی ایک دکاندار نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”ہمارا بہت کچھ انحصار سیاحوں کی آمد پر ہی ہے لیکن موجودہ صورت حال میں ہمیں کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ یہ حالت کب تک رہے گی۔"

حکومت سے کوئی مدد نہیں

تاج محل کے تقریباً بیالیس ایکڑ پر مشتمل وسیع و عریض کمپلکس میں واقع دکانیں بھی ایک برس سے زیادہ عرصے سے بند ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو حکومت کی جانب سے کسی طرح کی مدد نہیں ملی ہے۔ آگرہ کے ضلع مجسٹریٹ پربھو سنگھ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،”اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس شہر کی معیشت تاج محل سے وابستہ ہے۔ ضرورت مند افراد کو راشن فراہم کرنے کے علاوہ کوئی دوسری خصوصی اسکیم موجود نہیں ہے۔" سنگھ تاہم کہتے ہیں ”انہیں امید ہے کہ تاج محل جلدہی کھل جائے گا لیکن یہ بھی بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) کے فیصلے پر منحصر ہے۔"


گزشتہ برس چھ ماہ تک بند رہنے کے بعد ستمبر میں تاج محل، آگرہ قلعہ اور فتح پور سکری کو دوبارہ کھولا گیا تھا۔ زیادہ آمدنی کے غرض سے آگرہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے گھریلو اور غیر ملکی سیاحوں کے لیے ان تاریخی عمارتوں کی انٹری ٹکٹ کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا تاہم بعد میں اسے اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔

امید کی کوئی کرن نہیں

ٹورسٹ گلڈ آف آگرہ کے نائب صدر راجیو سکسینہ کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے آگرہ شہر میں تجارت کئی برس پیچھے چلی گئی۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے سکسینہ کا کہنا تھا،”مجھے نہیں لگتا کہ سن 2023ء سے پہلے حالات معمول پر آسکیں گے۔ اس وقت تک ہمارا بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہو گا۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ نہ تو مقامی انتظامیہ اور نہ ہی ریاستی حکومت لوگوں کی ضرورتوں پر کوئی توجہ دے رہی ہے یا کسی طرح کی مدد کر رہی ہے۔"


سکسینہ کا کہنا تھا کہ کووڈ کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے سبب اس شہر کو تقریباً پچاس ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا،”ہمیں امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ آگرہ کو دوبارہ اس کی رونق بحال کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہو گا اور یہ کوئی آسان نہیں ہو گا۔"

کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2020 میں بھارت کی ٹورزم انڈسٹری اور اس سے وابستہ دیگر شعبوں کو تقریباً پانچ کھرب روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔