نوجوان اور کورونا وبائی بیماری کا پھیلاؤ

ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جرمنی میں نوجوانوں کے ذریعے کورونا وائرس زیادہ پھيل رہا ہے۔ تاہم اس بارے ميں کوئی حتمی بات کہنا ابھی مشکل ہے۔

نوجوان اور کورونا وبائی بیماری کا پھیلاؤ
نوجوان اور کورونا وبائی بیماری کا پھیلاؤ
user

ڈی. ڈبلیو

کورونا وائرس نے پوری دنیا میں صحت کے نظام کو متاثر کیا ہے اور اموات کی شرح بلند سے بلند تر ہوتی جارہی ہے۔ حکومتيں کرفیو اور سماجی رابطے پر پابندی عائد کرنے پر مجبور تھيں۔

جنوبی کوریا، نیوزی لینڈ اور جرمنی جیسے ممالک اس بحران میں عالمی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں، کیونکہ ان ممالک کی حکومتوں نے کچھ ایسے فوری اور ٹھوس اقدامات کیے جن کی مدد سے اس وبا کو قابو سے باہر نہ ہونے دیا گیا۔ اس سے پیشہ ور سائنسدانوں اور وبائی امراض پر شوقیہ تحقيق کرنے والے ماہرین دونوں ميں دلچسپی بڑھ گئی۔


اس پس منظر میں جرمنی میں بنیادی قواعد کی پیروی کرنے کے بارے میں، خاص طور پر نوجوانوں کے کردار کو زیادہ قریب سے سمجھنے کے لیے ایک مطالعہ کروایا گیا۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے دو محققین نے متعدد بیماریوں اور وبائی امراض کے ليے سائنسی جریدہ "یوروسرویلنس" میں اپنے نتائج ويک اینڈ پرايک ايسے وقت پر شائع کیے جب بہت سے نوجوان بڑے شہروں کے پارکوں میں تفریح کررہے تھے اور کچھ نے لاک ڈاؤن مخالف مظاہروں میں بھی حصہ لیا تھا۔


نوجوانوں کےليے نسبتا زیادہ خطرہ

ہارورڈ کے مطالعے کا حوالہ دیتے ہوئے جرمن اخبار "ٹا گس اشپیگل" ميں یہ سرخی لگی: "20 سے 24 سال کی عمرکے نوجوان جرمنی میں کورونا وبائی بیماری پھیلا رہے ہیں۔" یہ خبريں دیگر جگہوں پر بھی چھپیں۔


لیکن اعداد وشمار پر نگاہ ڈالی جائے تو اس بیان کے قابل اعتماد ہونے پر سوال اٹھتا ہے۔ ہارورڈ کے وبائی امراض کے ماہر ایڈورڈ گولڈ اشٹائن اور مارک لپسیچ نے اپنے مطالعے کے لیے جرمنی کے رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ )آر کے آئی( کے اعداد و شمار کی جانچ کی۔

محققین نے مارچ کے آخری ہفتوں اور اپریل کے شروع میں کوویڈ 19 کیسز کے اعداد و شمار استعمال کیے۔ انہوں نے اس سے اخذ کیا کہ کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کا "ریليٹیو رسک" یعنی نسبتا خطرہ جرمنی میں 15 سے 34 سال کی عمر کے لوگوں کے لیے خاص طور سے زیادہ ہے۔


محققین کو جنوبی کوریا میں بھی اسی طرح کے وائرس سے متعلق اعداد و شمار ملے، جہاں زیادہ تر کیسز 20 سے 29 سال کی عمر کے افراد میں پائے جاتے ہیں۔

نامعلوم عوامل


تاہم مطالعہ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ محققین انفیکشن کے بڑھتے ہوئے خطرے کی وجوہات فراہم کرنے سے قاصر تھے۔ ان کا سائنسی مقالہ اس امکان سے متعلق ہے کہ کورونا وائرس میں پھیلاؤ کی وجہ "15 سے 34 "سال کی عمر کے لوگوں کے فاصلے کے قواعد کی کم پابندی ہوسکتی ہے۔

تاہم محققین نے اس حقیقت پر توجہ نہیں دی کہ نوجوان ایسی جگہوں پر زیادہ کام کرتے ہیں جہاں وہ بہت سے لوگوں سے رابطے ميں رہتے ہیں، جیسے ہوٹلوں اور ریستوراں میں، خوردہ دکانوں، اور بسوں اور ٹرینوں میں۔


جب کہ ان میں سے کچھ کو کورونا بحران کے دوران بند ہونا پڑا۔ ہارورڈ کے محققین نے ان اعداد و شمار کا حوالہ دیا جو باہر نکلنے کی پابندی سے قبل جزوی طور پر اکٹھا کیے گئے تھے۔

اس تحقیق میں اس حقیقت پر بھی نظر نہیں ڈالی گئی ہے کہ نوجوانوں کے پاس اپنی سواری ہونے کا امکان کم ہے جس کے باعث وہ پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال جاری رکھيں گے۔ اس کے علاوہ، حقیقت یہ ہے کہ جرمنی میں کورونا پھیلنے کی وجہ وہ نوجوان افراد تھے جو آسٹریا کے اسکيئنگ کے علاقوں سے واپس آئے تھے یا جنہوں نے کارنیوال منایا تھا۔ یاد رہے کہ اس دور میں وائرس خاص طور پر تیزی سے پھیلتا ہے۔


بہت سے مشکوک مطالعات

حال ہی میں سائنسی شعبوں سے بھی ہدایات جاری کی گئيں کہ انٹرنیٹ پر گردش کرنے والے کورونا وائرس سے متعلق مختلف مطالعات پر زیادہ تنقیدی نگاہ رکھی جائے۔ یہ مطالعات اکثر باضابطہ طور پر شائع نہیں ہوئے ہوتے ہیں اور اس وجہ سے ابھی تک کسی آزاد ماہر نے ان کی جانچ نہیں کی ہوتی ۔ سائنسی جریدہ "یوروسرویلنس" میں ہارورڈ کے مطالعے کو ایک پرنٹ آؤٹ کے طور پر شامل کیا گیا تاکہ اس سے متعلقہ موضوع پر مضمون شائع کرنے ميں مدد مل سکے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔