میں نے ننکانہ صاحب میں کیا دیکھا

سخت ترین حفاظتی انتظامات میں دنیا بھر سے آئے ہوئے سکھ یاتری اس وقت سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک کے پانچ سو پچاسویں جنم دن کی تقریبات میں شریک ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے نمائندے تنویر شہزاد بھی وہاں پہنچے۔

میں نے ننکانہ صاحب میں کیا دیکھا
میں نے ننکانہ صاحب میں کیا دیکھا
user

ڈی. ڈبلیو

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا، جرمنی، برطانیہ، آسٹریلیا ، متحدہ عرب امارات، ملائشیا اور کینیڈا سمیت دنیا کے مختلف ملکوں سے سکھ یاتری اتنی بڑی تعداد میں یہاں جمع ہیں۔ اندرون و بیرون ملک سے آنے والے یاتریوں کی مجموعی تعداد پچاس ہزار سے زائد بیان کی جا رہی ہے۔

یورپ سے آنے والے سکھوں کو مرکزی گوردواروں میں ٹھہرایا گیا ہے۔ پاکستانی سکھ یاتریوں کے لیے ایک ٹینٹ سٹی بسایا گیا ہے۔ شہر کے تمام نجی ہوٹل اور تجارتی قیام گاہیں مکمل بُک ہیں اور شہر کے پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں میں چھٹیاں کر کے وہاں سکھ یاتریوں کی رہائش کے لیے انتظامات کیے گئے ہیں۔ بہت سے متمول سکھ یاتری لاہور کے بڑے ہوٹلوں میں قیام پذیر ہیں اور لاہور کراچی موٹروے کے ذریعے وہ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں ننکانہ صاحب پہنچ جاتے ہیں۔

ننکانہ شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہی جگہ جگہ سکھ یاتریوں کے لیے خیرمقدمی پوسٹرز دکھائی دے رہے ہیں۔ بھارت سمیت دنیا بھر سے آنے والے سکھ یاتریوں کو شہر کے رش سے بچا کر گوردواہ جنم استھان یا دربار صاحب پہنچانے کے لیے جو نئی سڑک بنائی گئی ہے اس کا نام کشمیر روڈ رکھا گیا ہے۔ سکھوں کے اس میلے کی وجہ سے شہر کی سڑکوں کو سجایا گیا ہے اور شہر میں موجود تمام گوردواروں کی تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ مرکزی گردوارے میں لگائے گئے رقص کرتے ہوئے رنگدار پانی کے فوارے بھی یاتریوں کا دل لبھا رہے ہیں۔

مرکزی گردوارے سے لے کر شہر کے دوسرے کونے تک جگہ جگہ مسلح پولیس اہلکار چوکس ہیں۔ کئی دوسرے اضلاع سے بھی نفری منگوائی گئی ہے۔ سکھ یاتریوں کی شناخت بائیو میٹرک طریقے سے کی جا رہی ہے۔ اس گوردوارے کے آس پاس کے علاقوں میں انٹرنیٹ اور فون کی سہولت ٹھیک طرح سے میسر نہیں۔ تقریباﹰ ایک لاکھ آبادی والے شہر ننکانہ صاحب کے شہریوں کو شناختی کارڈ کے ساتھ باہر نکلنے کے لیے کہا گیا ہے۔

کئی سکیورٹی چیکس سے گزرنے کے بعد گوردوارہ جنم استھان میں داخل ہوں تو پنجاب کے گورنر چوہدری محمد سرور کی اہلیہ کے فلاحی ادارے سرور فاونڈیشن کی طرف سے یاتریوں کے لیے میڈیکل کیمپ موجود ہے۔ اس کیمپ میں موجود ڈاکٹر صاحب کے مطابق موسمی اثرات کی وجہ سے کئی لوگوں کو فلو، بخار، کھانسی اور اسی طرح کی دیگر بیماریوں کی شکایات ہیں جنہیں مناسب طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔

تھوڑا سا آگے جائیں تو عارضی طور پر قائم کیا جانے والا ڈاک خانہ، بینک اور بلدیہ کا سہولت سنٹر دکھائی دیتا ہے۔ سارا گوردوارا یاتریوں سے بھرا ہوا ہے اور لوگ عبادات کے علاوہ مختلف کاموں میں مصروف ہیں۔

ذرا دائیں طرف مڑ کر لنگر خانے کی طرف گئے تو سکھر سے آئی ہوئی ایک سکھ خاتون سنگیتا نے غالبا ہمیں بھی یاتری سمجھتے ہوئے اپنے پاس بلایا اور دوسرے لوگوں کی طرح ہمارے ہاتھ پر بھی ٹافیاں رکھ دیں۔ مزے مزے کے کھانوں کی مہک میں بسے لنگر خانے میں سکھ خواتین یاتریوں کی سیوا کے لیے اپنے ہاتھوں سے روٹیاں بنانے میں مصروف نظر آئیں۔ ایک بزرگ سکھ لوگوں کو بلا بلا کر گرم گرم جلیبیاں دے رہے تھے۔ امیر غریب سبھی یاتری دریوں پر بیٹھ کرپرشاد کھا رہے تھے۔ لنگر خانے سے باہر نکلے تو ایک جگہ بڑی عمارت پر جوتا گھر لکھا نظر آیا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہاں موجود سکھ یاتری ہر لوگوں کو بلا معاوضہ جوتے پالش کر کے دے رہے ہیں۔

گوردوارے کے اندرونی حصے میں جانا چاہا تو پہلے جوتے اتارنے کا مشورہ ملا پھر پیلے رنگ کا رومال سر ڈھانپنے کے لیے دیا گیا۔ گردوارے میں سکھ اپنی عبادات میں مشغول نظر آئے اور وہاں مذہبی گیت بھی گائے جا رہے تھے۔ اس گوردوارے میں سکھوں کی تاریخ کی یادیں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں۔ کہیں سکھوں کے لیے جان قربان کرنے والوں کی یادگار ہے اور کہیں گوردوارے کی قدیم عمارت اپنی اصل شکل میں محفوظ ہے۔ ہمیں ایک پانی کے کنوئیں کے بارے میں بتایا گیا جس کے پانی کو یاتری عقیدت اور احترام کے ساتھ پیتے ہیں۔

گردوارے کے باہر بھی یاتری مختلف سرگرمیوں میں مصروف نظر آئے۔ ملکی اور غیر ملکی شعراء کا مشاعرہ جاری تھا جبکہ کنییڈا سے آئے ہوئے سکھ پہلوانوں نے پاکستانی نوجوانوں کے ساتھ کبڈی میچ بھی رکھا ہوا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔