گندم کی جنگ: دنیا میں شدید بھوک کے خدشے میں اضافہ

دنیا کی بڑی زرعی طاقت یوکرین پر روسی فوجی کارروائی کے سبب گیہوں کی عالمی منڈی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ اس تصادم کے سبب بعض ملکوں میں بھوک کی تشویشناک صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔

گندم کی جنگ: دنیا میں شدید بھوک کے خدشے میں اضافہ
گندم کی جنگ: دنیا میں شدید بھوک کے خدشے میں اضافہ
user

Dw

گیہوں تقریباً ہر شخص کے روزمرہ کے کھانے کا حصہ ہے۔ بریڈ سے لے کر پاستا اور حلوہ جات تک گیہوں کے آٹے سے تیار کیے جاتے ہیں۔ ماہر اقتصادیات اور Feeding Humanity نامی کتاب کے مصنف برونو پارمینٹیئر کہتے ہیں،''گیہوں ہر کوئی کھاتا ہے لیکن ہرشخص اسے اگانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔‘‘

دنیا کے کوئی ایک درجن ملک ہی ایسے ہیں جو اتنا گیہوں پیدا کرپاتے ہیں کہ وہ اسے ایکسپورٹ بھی کر سکیں۔ چین دنیا میں سب سے زیادہ گیہوں پیدا کرتا ہے لیکن وہ گیہوں کا سب سے بڑا درآمدکنندہ بھی ہے کیونکہ اسے اپنی 1.4 ارب آبادی کی خوراک کی ضرورتیں پورا کرنا پڑتی ہے۔


روس، امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور یوکرین دنیا میں گیہوں ایکسپورٹ کرنے والے چوٹی کے ممالک ہیں۔ فروری میں یوکرین پر روس کے حملے سے پہلے ہی اناج بہت مہنگی ہوچکی تھی۔ قیمتوں میں اضافے کے متعدد اسباب تھے۔ مثلاً توانائی کی قیمتوں میں اضافہ، کووڈ کے دوران لاک ڈاؤن کی وجہ سے معیشتوں کی خستہ حالی، نائیٹروجن پر مبنی کھاد بھیجنے کی لاگت میں اضافہ وغیرہ۔

کووڈ کی پابندیوں کے خاتمے کی وجہ سے بھی عالمی سپلائی چین کافی متاثرہوئی کیونکہ تمام طرح کی مصنوعات کی مانگ میں اچانک تیزی سے اضافہ ہوگیا۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں گزشتہ برس گرمی کی لہر کے سبب بہت کم زرعی پیداوار ہوسکی۔


روسی حملے کے بعد قیمت میں مزید اضافہ

یوکرین پر روسی فوج کے حملے کے بعد گیہوں کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ یہ مئی میں یورپی مارکیٹ میں 418 ڈالر فی ٹن پہنچ گئی جو کہ گزشتہ برس کے موسم گرما کے مقابلے دو گنی تھی۔

گیہوں کی قیمتوں میں اس اضافہ سے سب سے زیادہ متاثر ترقی پذیر ممالک ہوئے۔ اقوام متحدہ کے ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنازیشن (ایف اے او) کے مطابق30 سے زائد ممالک تقریباً30 فیصد گیہوں کی اپنی درآمدات کی ضرورتوں کے لیے روس اور یوکرین پر انحصار کرتے ہیں۔


جنگ شروع ہونے سے قبل یہ دونوں ممالک یورپ کے لیے ناشتہ فراہم کرنے کا ذریعہ سمجھے جاتے تھے کیونکہ عالمی اناج ایکسپورٹ کا 30 فیصد ان ہی دونوں ملکوں سے ہوا کرتا تھا۔ حالیہ برسوں میں ان کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ روس دنیا میں اناج ایکسپورٹ کرنے والا سرفہرست ملک بن گیا ہے جب کہ یوکرین تیسرے نمبر پر ہے۔

روسی بحریہ نے یوکرین کے جہازوں کو اناج لے جانے سے روک رکھا ہے۔ ان پر25 ملین ٹن اناج پڑے ہوئے ہیں اور وہ گوداموں یا بندرگاہوں میں پھنس گئے ہیں۔ حالانکہ ریل اور سڑک کے راستے کچھ اناج ایکسپورٹ کیے جارہے ہیں لیکن وہ سمندر کے راستے ایکسپورٹ کیے جانے والے اناج کی مقدار سے چھ گنا کم ہیں۔


امید اور امکانات

یوکرین کے کسانوں کو ایک اور خطرہ لاحق ہے۔ بعض کھیتوں میں بارودی سرنگیں نصب کر دی گئی ہیں جن کے پھٹنے سے ہلاکت کا خدشہ ہے۔ ایسے میں کسان ان بارودی سرنگوں کا پتہ لگانے اور انہیں ناکارہ بنانے کے لیے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے پرمجبور ہیں۔

یوکرین میں اناج کے تاجروں کی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اس سال گیہوں کی پیداوار میں 40 فیصد تک گراوٹ آنے کا خدشہ ہے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے روس کی جانب سے رکاوٹ کو ''بلیک میلنگ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جان بوجھ کر یہ حکمت عملی اپنائی ہے تاکہ دنیا ان کے آگے جھک جائے اور ماسکو پر عائد پابندیاں ختم کردے۔


پارمینٹیئرکہتے ہیں،''جنگ کے زمانے میں یقیناً دوسرے ملکوں کی قسمت بڑے پیمانے پر اناج پیدا کرنے والے ملکوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔‘‘ ترکی نے بحیرہ اسود کے راستے اناج کی ترسیل کی کوششیں شروع کردی ہیں اور کہا ہے اس سلسلے میں آنے والے ہفتوں میں روس، یوکرین اور امریکہ کے ساتھ چار ملکی بات چیت ہوگی۔

چین کی جانب سے گیہوں کے اسٹاک فوری طور پر جاری کیے جانے کی توقع نہیں ہے جب کہ بھارت نے گیہوں کے ایکسپورٹ پر عارضی طورپر پابندی لگارکھی ہے۔ امریکی محکمہ زراعت کے مطابق سال 2022-2023 ء کے دوران گیہوں کی عالمی پیداوار 775 ملین ٹن تک پہنچ سکتی ہے جو کہ اس سے سابقہ برس کے مقابلے 4.5 ملین ٹن کم ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔