اے جبلت زندہ باد

کسی بھی پاپولسٹ لیڈر کی سیاست اور طرزِ سیاست کے بارے میں آپ کی بھلے جو بھی رائے ہو ، آپ اس کے کٹر بھگت ہوں یا بے لچک سیاسی دشمن۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اے جبلت زندہ باد
اے جبلت زندہ باد
user

Dw

فرق بس اس سے پڑتا ہے تو کہ کسی بھی دور کی جدید ابلاغی دنیا میں کون کتنی جلد آبادی کے بڑے طبقے کے دل و دماغ تک پہنچ کر خود کو مسلسل روزمرہ کا موضوعِ سخن بنانے میں کامیاب ہے۔

سیاستِ دوراں نام ہی اس راز کا ہے کہ کون اپنا منجن کتنی کامیابی سے بیچ سکتا ہے اور اس کا سیلز نیٹ ورک کس قدر جدید اور متحرک ہے۔ آپ کسی بھی پاپولسٹ لیڈر کی زندگی دیکھ لیں۔ ان سب میں کچھ بنیادی اقدار مشترک ہیں۔ یہ سب گیٹ کریشر ہوتے ہیں اور روایتی سیاسی سیٹ اپ کو اوپر نیچے کر کے اپنے لیے راستہ نکالتے ہیں۔


وہ اپنی ذاتی کشش کو نظریاتی میدے میں گوندھ کر ایسا بیانیہ تشکیل دینے کے ماہر ہوتے ہیں، جو نہ صرف زود ہضم ہو بلکہ آسانی سے آبادی کے اکثریتی طبقے بالخصوص جوان خون کے جبلی تار چھیڑ سکے اور ان میں سے بیشتر رفتہ رفتہ یہ سوچنے پر آمادہ ہو جائیں کہ ہم بھی تو یہی محسوس کر رہے تھے۔ یہ تو ہم میں سے ہی ہے۔

پاپولسٹ لیڈر غیر روایتی خطیب اور مسجع و مقفع لغت کے بجائے روزمرہ کی زبان میں اپنے پرچار کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہ پیغام اکثر مختصر و پراثر ہوتا ہے۔ عموماً ان کے ایجنڈے کے دو بنیادی اجزائے ترکیبی ہوتے ہیں۔ قوم پرستی اور اکثریت میں مقبول مذہبی یا پھر کوئی غالب نظریہ جس میں ایک عظیم ماضی کی جھلک ہو۔ پاپولسٹ لیڈر اپنی کہے پر ”پتھر پے لکیر” کی طرح قائم نہیں رہتے بلکہ ہوا اور مزاج دیکھ کر موقف میں مسلسل تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔ نہیں بدلتا تو ہدف۔ یعنی ہر قیمت پر اقتدار۔


ان کی دوکان پر ہر طبقے کے لیے کچھ نہ کچھ سودا پڑا رہتا ہے۔ ان کا اسٹرٹیجک گودام ہر طرح کے خوابوں اور معلوم و نامعلوم خوف کی مصنوعات سے اٹا رہتا ہے۔

خواب اور خوف فروخت کرنے کی تکنیک یہ بیانیہ ہے کہ اگر تم نے میرا ساتھ دیا تو تمہاری مانگ ستاروں سے بھر دوں گا۔ اگر تم نے میری مخالفت کی تو نہ صرف یہ سماج، ریاست اور اس کی معیشت و ثقافت برباد ہو جائے گی بلکہ تمہارا نام بھی اس ریاست کے دشمنوں میں لکھا جائے گا۔


میرا تو کچھ نہیں بگڑے گا مگر تم پھر میرے جیسا ہیرا تلاش کرنے میں نہ جانے کتنے عشروں تک مزید مارے مارے پھرتے رہو گے۔ لہذا عظیم بننے کا یہ موقع ہاتھ سے مت جانے دو۔ ہاتھ میں ہاتھ دو تا کہ تمہیں اور تمہاری اگلی نسلوں کے لیے ایک سنہرے مستقبل کی بنیاد رکھ سکوں۔

ایسا لیڈر کبھی بھی حریف کے میدان میں نہیں کھیلتا بلکہ اپنی پسند کے میدان میں حریف کو لا کے گھیرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ انتھک ہوتا ہے۔ اس کی گول پوسٹ اس کے کندھوں پر رہتی ہے۔ وہ حریف سے کرکٹ کھیلتے کھیلتے اچانک ہاکی شروع کر سکتا ہے اور حسبِ ضرورت بیڈ منٹن کا ریکٹ پھینک کر رگبی یا باکسنگ پر بھی اتر سکتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ حریف مسلسل بھونچکا اور ایڑیوں کے بل پر رہے اور تماشائی ہر آن بدلتا منظر دیکھتے دیکھتے کبھی بھی بوریت کا شکار نہ ہوں۔


اس کا ہر بیان ایک نئی بحث چھیڑتا ہے اور مخالفین اس بیان کے حق یا مخالفت میں بٹ کر اس کی باریکیوں میں اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ اپنا متبادل بیانیہ تیار کرنے سے بھی غافل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سائنسی و زمینی حقائق بھلے کچھ بھی ہوں۔ پاپولسٹ لیڈر کا اپنا نظامِ حقائق اور نظامِ دلائل ہوتا ہے۔ وہ تکرار کی تکنیک غیر معمولی انداز میں استعمال کرتے ہوئے عام آدمی کو بھی ذہنی طور پر یہ ماننے پر مجبور کر دیتا ہے کہ اگر ہمارا لیڈر مسلسل ایک ہی بات تواتر سے کہہ رہا ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ سچائی اور حقیقت تو ضرور ہو گی۔

اور پھر اس کے حامی اسے مافوق الفطرت انسان کے الوہی منڈب پر خود بخود چڑھا دیتے ہیں۔ اس کی آفاقی عظمت کے قصیدے تخلیق ہونے لگتے ہیں۔ ساتھ کے لوگ بھی اس کی مرعوبیت کے سحر میں لاشعوری طور پر مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں جیسے اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے مجسمے کے سامنے جھکنے کی لاشعوری خواہش۔


مگر مقبولیت تو آنی جانی ہے ۔چنانچہ اس عارضی مقبولیت کو دائمی یا تاحیات صورت دینے کے لیے ہر پاپولسٹ لیڈر کو بطور پنچنگ بیگ کم از کم ایک عدد سیاسی، نسلی، علاقائی یا نظریاتی اندرونی یا بیرونی دشمن درکار ہوتا ہے۔ اگر ایسا دشمن نہ میسر ہو تو لیڈر خود تخلیق کر لیتا ہے تاکہ جب اس کی لمبی لمبی گفتگو، قلابوں اور ہوا میں مکے بازی کی مشقِ مسلسل سے تماشائی اوبھنے لگیں تو دوبارہ جوش بھرنے کے لیے ان کی توجہ پنچنگ بیگ کی جانب موڑی جا سکے۔

اور جب اس لیڈر کو اس کی حتمی منزل یعنی اقتدار مل جاتا ہے تو پھر اس کے حامی اس کی جانب امید بھری نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ لیڈر کرسی تک پہنچتے پہنچتے اپنے حامیوں کی توقعات آسمان پر پہنچا چکا ہوتا ہے۔ مگر توقعات بندھوانا اور پھر انہیں عملاً نبھانا دو بالکل ہی الگ عمل ہیں۔


چنانچہ مطالبات کہیں بڑھتے ہی نہ چلے جائیں۔ اس کی پیش بندی میں رفتہ رفتہ مخالفین اور پھر قریبی رفقا پر سخت گیری کا شکنجہ کسنا شروع ہو جاتا ہے۔ کسی بھی قسم کا اختلاف ایک اضافی پنچنگ بیگ بن جاتا ہے۔ لیڈر چونکہ پہلے ہی اپنے بھگتوں میں یہ ایمان بھر چکا ہوتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور ہر حال میں اپنے قدموں پر ڈٹا رہے گا۔ لہذا وہ ہر ناکامی کا دوش کسی بھی حقیقی و خیالی اندرونی و بیرونی دشمن کے سر منڈھنے کا وتیرہ اپنانے لگتا ہے ۔

اپنے خلاف ہونے والی حقیقی و فرضی سازشوں کو ناکام دکھانے کے لیے ان رفقا میں سے کسی کو بھی قربانی کا بکرا بنانے میں اسے کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ جو رفقا نہ صرف اسے اپنے کندھوں پر سوار کر کے سنہری تخت تک لائے بلکہ اس کا مافوق الفطرت تاثر تخلیق کرنے میں بھی انہوں نے ہی بنیادی کردار ادا کیا۔


کچھ دنوں بعد جب یہ تلخ سچ خاموش انداز میں کھلنے لگتا ہے کہ لیڈر کے پاس صرف دل و دماغ کو چکاچوند کرنے والی وقتی صلاحیت ہی ہے تو اس سے پہلے کہ یہ حقیقت وبائی انداز میں پھیلنا شروع کرے پاپولسٹ لیڈر ریاستی مشینری اور انتظامی ڈھانچے کو وہ ڈھب دینے کی کوششوں میں جٹ جاتا ہے جو اسے جیتے جی معزولی، ہار یا سیاسی شکست سے محفوظ رکھ سکے۔

رفتہ رفتہ خود کو محفوظ و مضبوط تر رکھنے کی یہ خواہش ہی جنون اور جنون سے اندھے پن اور اندھے پن سے تنہائی اور تنہائی سے ذاتی بقا کے خوف میں تبدیل ہوتی ہوتی بند مٹھی کی ریت کی طرح گرنا شروع ہو جاتی ہے۔


مگر وہ جاتے جاتے بھی کوشش کرتا ہے، ”میں نہیں تو کچھ بھی نہیں‘‘۔ اگلی چند حکومتیں جسدِ ریاست پر پاپولسٹ لیڈر کے لگائے چرکے مندمل کرنے میں خرچ ہوتی چلی جاتی ہیں اور اس بیچ پھر ایک نئی نسل جوان ہو جاتی ہے، جس نے ماضیِ قریب کے اس پاپولسٹ لیڈر کے بارے میں سنا ضرور ہوتا ہے مگر اسے براہِ راست برتا نہیں ہوتا۔

چنانچہ اس نئی نسل میں یہ سوچ پروان چڑھنے لگتی ہے کہ وہ زمانہ اور تھا یہ زمانہ اور ہے۔ تاریخ خود کو ہرگز نہیں دھرائے گی اور پھر اچانک انہی کے درمیان سے کوئی ایک اور پاپولسٹ ابھرنا شروع کر دیتا ہے جو پیچیدہ مسائل کے ایسے ایسے مختصر، آسان اور تیر بہدف نسخے اپنی پوٹلی میں بھر کے لے آتا ہے کہ اگلی نسل پھر سے دھڑا دھڑ اس منجن پر ٹوٹ پڑتی ہے۔


کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک محرومیاں، عدم تحفظ اور دوسرے کو زیر کرنے کی خو برقرار ہے۔ پاپولسٹ لیڈر فصل کاٹتے رہیں گے۔ اس کا تعلق آبادی کے خواندہ نا خواندہ ہونے سے زیادہ بنیادی انسانی جبلت سے ہے۔ مانا کہ ہر شے پچھلے سات ہزار برس میں بدل گئی ہو گی۔ البتہ جبلت جہاں تھی وہیں کھڑی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */