یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں!

عورتیں گھر میں ہوں تو فیملی کی طرف سے یہ دباو کہ ملازمت کرتی ہے تو کیا ہوا گھر بھی برابر سنبھالے اور اگر وہاں کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس پر بھی الگ طعنے سنتی ہیں۔

یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں!
یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں!
user

Dw

کچھ عرصہ قبل ایک مقامی اخبار کے ادبی صفحے والوں نے مجھ سے میرے انٹرویو کے لیے رابطہ کیا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ وہ میرے کام کو اس قابل سمجھ کر آئےاور وہ میرے نظریات اور موضوعات کا احاطہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ لیکن افسوس تب ہوا، جب پتہ چلا کہ انٹرویو لینے والے کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ میں کون ہوں اور کیا لکھتی ہوں؟ اسے کسی جاننے والے نے یہ کہہ کر میری طرف توجہ دلائی تھی کہ یہ خاتون فیس بک پر بہت فعال ہے، اچھی اچھی تصویریں پوسٹ کرتی ہے، بولڈ ہے اور اس کے فالورز کی تعداد اچھی ہےتو اس نئے شروع ہوئے اخبار کو اس کا انٹرویو چھاپنے سے مزید لوگوں تک پہنچنے کا موقع ملے گا۔

اور جس طرح کا سوالنامہ مجھے بھیجا گیا، وہ انٹرویو کرنے والے کی لا علمی کہیں یا سادگی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ بہرحال میں نے اس ریفرنس کی مروت میں ان سوالوں کے جواب بھیج دیے تاہم زیادہ مزاحیہ صورت حال تب بنی، جب میری بہت سی تصویریں صفحے کے عین آخر میں ایک ترتیب سے ایسے چھاپ دی گئیں، جیسے وہ اپنا اخبار ان تصاویر کے زور پر ہی بیچنا چاہ رہے ہوں۔


یہ ایسی تکلیف دہ بات تھی کہ میں نے آئندہ ایسے ہر انٹرویو سے توبہ کر لی، جہاں میری شکل یا سوشل میڈیا کی شہرت کو کیش کروانے کا ذرا سا بھی شبہ ہوا ہو۔ لیکن اس واقعے نے مجھے بہت سے پرانے اور بعد میں ہونے والے اتفاقات پر محتاط ضرور کر دیا۔

ذرا سا غور کرنے پر سمجھ آئی کہ زندگی میں کتنی ہی بار میرٹ پر ہونے کے باوجود دیکھنے والوں نے ساری محنت کو دو خانوں میں فٹ کر دیا۔ ایک عورت ہونا دوسرا شکل و صورت کا بہتر ہونا۔ یہاں تک کہ سرکاری جاب کا ملنا بھی کچھ لوگوں نے یہ ہی کہہ کر مشکوک کر دیا۔


پھر جب اپنی ذات سے نکل کر دیکھا تو بہت سی ایسی مثالیں دکھائی دیں کہ کوئی خاتون کسی ادارے کی سربراہ ہوئی اور وہ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ باصلاحیت بھی تھی تو اس کی تعلیم کو بھی اس کی اچھی صورت کے بھینٹ چڑھا کر اس کا کسی عہدے پر ہونے کو ایسے ہی جملوں کے ذریعے ایسا برا بنا کر پیش کیا جاتا رہا کہ ہم بھی اس کی سیٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے تھے۔ مگر جب سے یہ بات سمجھ آئی ہےکہ ہم عورتیں ایسے الزامات سے لڑتے لڑتے اپنی ہمت اوقات سے کتنا بڑھ کے کام کرتی ہیں کہ وقت سے پہلے تھکنا شروع ہو جاتی ہیں۔

گھر میں ہوں تو فیملی کی طرف سے یہ دباو کہ ملازمت کرتی ہے تو کیا ہوا گھر بھی برابر سنبھالے اور اگر وہاں کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس پر بھی الگ طعنے سنتی ہیں۔ آفس میں ہوں تو یہ ثابت کرتے ہلکان ہو جاتی ہیں کہ وہ عورت کارڈ نہیں کھیلتیں اور مردوں کے برابر کام کے چکر میں مردوں سے کئی گنا زیادہ محنت کرنے کے بعد بھی اپنی پروموشن پر یہ داغ لیے پھرتی ہیں کہ عورت ہے نا اور شکل کی بھی اچھی عورت تو کیسے فیور نہ ملتی۔


ایسا کہنے والوں کو نہ جانے کس لیے اپنی کاہلی اور نکما پن دکھائی نہیں دیتا اور ایسے تبصروں پر مشتمل افواہیں پھیلاتے ہوئے انہیں یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ ذہانت اور قابلیت صرف ایک ہی جنس کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ جب علم کا حصول ہر جنس پر یکساں فرض ہے تو مہارت اور قابلیت بھی محنت کرنے والے کے حصے میں کیوں نہیں آئے گی۔ آپ کب تک اپنی کوتاہیوں کو ایسے جملوں کے پیچھے چھپاتے رہیں گے اور کب تک ہم عورتوں کی محنتوں پر پانی پھیرتے رہیں گے۔

میں یہ نہیں کہتی کہ دنیا میں کوئی عورت ایسا کوئی کارڈ استعمال نہیں کرتی لیکن ان کا کیا جو اپنی شکل وصورت اور اپنی جنس کو اپنا ہتھیار نہیں بناتیں۔ میرے آس پاس ایسی بہت سی مثالیں ہیں، جنہوں نے اپنے برے معاشی حالات سے نکلنے کے لیے محنت کے راستے کو اپنایا، کوئی گھر کی سطح پر کوئی کاروبار کرنے لگی تو کسی نے مردوں کے شانہ بشانہ شاپنگ مالز اور ریسٹورنٹس کے کاونٹرز پر کام کرنے کو ترجیح دی۔


بہت سی عورتیں جو پڑھی لکھی کم تھیں اچھا کھانا بنا سکتی تھیں تو کھانا بنا کر بیچنے لگیں،کسی کو میک اپ اور دیگر نجی قسم کے کام آتے تھے تو وہ اس طرح کی سروسز گھر گھر جا کے فراہم کرنے کی طرف راغب ہوئیں۔ کوئی کیٹرنگ کے بزنس سے جڑی ہوئی ہے تو کوئی مختلف پراڈکٹس کا آن لائن کاروبار کر رہی ہے۔ کتنی ہی کمپنیز کی سی ای اوز کو میں ذاتی طور پر مل چکی ہوں، جنہوں نے زیرو سے کام شروع کیا اور آج بڑی بڑی کمپنیز چلا رہی ہیں۔

ابھی دو روز قبل ایک خاتون سے ملاقات ہوئی، جو چھ سال سے مختلف گرلز ہاسٹلز میں جا جا کر سستے انڈر گارمنٹس اور بیوٹی پراڈکٹس بیچتی ہیں۔ ان کی مارکیٹنگ کے انداز میں اس قدر متاثر ہوئی کہ اپنی طالبات سے کہنا پڑا کہ بات کیسے کرتے ہیں ان سے سیکھیں۔ اب ایسی محنتی عورتوں کا کیا قصور ہے کہ انہیں گھر، گلی محلے، آفس اور کام کی ہر جگہ پر یہ طعنہ دے کر ان کی مجبوری، شوق یا خواہش کو بدنام کر دیا جائے۔


جب ہم عورتیں آپ کی محنت اور معاشرے میں آپ کے مقام سے منکر نہیں ہوتیں اور آپ کو اپنا معاون و مددگار سمجھتی ہیں تو اب آپ کی باری ہے کہ آپ ہمیں بھی ممد و معاون ہی خیال کریں اور ہمارے کام، ہماری صلاحیتوں اور محنتوں کو تسلیم کرنے کی شروعات کر دیں۔ کیونکہ جلد یا بدیر آپ کے گھروں کی عورتوں کو بھی معاشی و سماجی خود مختاری کی طرف آنا پڑے گا۔ ہمارے لیے نہیں تو ان کے لیے ہی سازگار ماحول تخلیق کرنے کی طرف قدم بڑھا لیں۔ یقین مانیے! اس میں آنے والی نسلوں کے لیے نجات ہی نجات ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔